Source: http://www.bbc.com/urdu/entertainment-43194158
'غالب معشوق کے جسم سے لطف اندوز نہیں ہوتے'
'ہوں میں وہ سبزہ کہ زہراب اگاتا ہے مجھے'
یہ اردو کے عظیم شاعر مرزا غالب کا ایک مصرعہ ہے لیکن ہندی کے معروف شاعر اشوک واجپئی کو یہ دہلی کے حالیہ سموگ میں زندگی بسر کرنے والے شہریوں کے حال زار کا بیان لگا۔
'غالب کی دلی' کے عنوان کے تحت انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں منعقد ہونے والے دو روزہ پروگرام میں اشوک واجپئی نے کہا کہ غالب کے زمانے کی طرح دہلی میں آج بھی 'شب و روز تماشا' ہو رہا ہے لیکن انھیں اسے دیکھنے کے لیے 'فقیروں کا بھیس بدلنے' کی ضرورت نہیں۔
انھوں نے غالب کے مصرعوں 'ہوتا ہے شب و روز تماشا میرے آگے' اور 'بدل کر فقیروں کا ہم بھیس غالب، تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں' کے سہارے موجودہ حکومت پر سخت تنقید کی جو سامعین تک براہ راست پہنچی۔
یہ بھی پڑھیے
معروف ناقد شمس الرحمان فاروقی نے کہا کہ 'غالب کے نام پر اتنے لوگوں کا جمع ہونا بہت بڑی بات ہے اور غالب پر اگر ہم رات بھر بھی بات کرتے رہیں تو میرا آپ سے وعدہ ہے کہ آپ بور نہ ہوں گے کیونکہ وہ شخص ہی ایسا ہے۔'
انھوں نے غالب کے ایک فارسی شعر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 'غالب نے خواب میں فرشتے سے پوچھا کہ دلی کیا چیز ہے تو اس نے جواب دیا کہ دہلی جان ہے اور ساری دنیا اس کا بدن ہے۔'
انھوں نے بتایا کہ اسی نظم میں غالب نے بنارس کے بارے میں بات کی ہے سون ندی، پٹنہ اور کلکتے کا ذکر کیا ہے۔ بنارس کے بارے میں کہا ہے کہ 'یہ ایک معشوق ہے جو باغ میں پھول توڑ رہی ہے'۔
انھوں نے بتایا کہ غالب نے الہ آباد میں ایک شب گزاری اور اسے بہت برا بھلا کہا اور یہ لکھا ہے کہ 'اگر جنت کا راستہ الہ آباد سے ہو کر جائے تو بھی میں نہ جاؤں گا۔'
یہ بھی دیکھیے
غالب کے مختصر بیان کے بعد شمس الرحمان فاروقی نے کہا: 'اس آدمی (غالب) کی ہم کیا بات کریں، اس کو جہاں سے آپ اٹھاؤ، جس پہلو سے دیکھو، جہاں جس کونے کو اٹھاؤ کوئی نہ کوئی نیا پہلو نکالتا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ غالب کو زمانے سے بڑی شکایت رہی ہے اور اس کا اظہار جا بجا ملتا ہے۔ انھوں نے 20-19سال کی عمر میں لکھا:
برنگ سبزہ عزیزان بد زباں یک دشت
ہزار تیغ بہ زہراب دادہ رکھتے ہیں
غالب کی غزلوں کو انگریزی میں ترجمہ کرنے والے مصنف پون کمار ورما نے اشوک واجپئی کے خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر غالب انسانی کم مائیگی اور ناامیدی کے شاعر ہیں تو وہ اردو میں امید کے بھی سب سے بڑے شاعر ہیں۔
سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے!
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
اشوک واجپئی نے کہا کہ غالب کے یہاں جس طرح گھر کا مختلف تصور ہے اسی طرح ان کی دلی بھی مختلف رنگوں میں جلوہ نما ہے۔
یہ بھی پڑھیے
تاریخ داں اور مصنف ولیم ڈال ریمپل نے کہا کہ انھوں نے غالب کو ان کے خطوط کے حوالے سے جانا اور ان کے خطوط میں دہلی کی جو منظر کشی ہے وہ اپنے دور کی مستند تاریخ کہی جا سکتی ہے۔
ان کی شاعرانہ عظمت کے بارے میں انھوں نے کہا کہ وہ شیکسپیئر اور دوسرے عظیم شاعروں کی طرح ہر زمانے کے لیے ہیں۔
جبکہ شمش الرحمان فاروقی نے کہا کہ کوئی شاعر اس وقت تک عظیم ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ اس کی شاعری زمان و مکاں کی قید سے آزاد نہ ہو۔
انھوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر میر کو غالب سے بڑا شاعر مانتے ہیں کیونکہ غالب اپنی ذات میں گم ہیں جبکہ میر اس سے باہر۔ وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جیسے معشوق سے جھگڑنا، اس کو برا بھلا کہنا۔ وہ میر کی طرح معشوق کے جسم سے لطف اندوز نہیں ہوتے ہیں۔'
غالب کی دہلی کے دو روزہ پروگرام کو چار حصوں 'شہر آرزو'، 'تماشا میرے آگے'، 'عجب وقت' اور 'غم ہستی' کے عنوانات کے تحت پیش کیا گيا۔
آئی آئی ایل ایم کی سربراہ مالویکا رائے نے کہا کہ دلی شہر کا جشن منانے کے لیے انھوں نے اس سے قبل 'میر کی دلی' پر اسی قسم کے پروگرام کا انعقاد کیا تھا اس بار غالب کے 220 ویں یوم پیدائش کے لحاظ سے سنيچر اور اتوار کو 'غالب کی دلی' کا جشن منایا جا رہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ آئندہ سال مہاتما گاندھی کے حوالے سے گاندھی کی دلی کے عنوان سے بات ہو گی۔
No comments:
Post a Comment