Tuesday, 24 April 2018

GERMONY: USAMA BIN LADEN GUARDS ARE GUARDED, WITNESS OF BRUTAL KILLINGS; HUMANITY CRUSHING


Source: https://www.bbc.com/urdu/world-438818

اسامہ بن لادن کے ’محافظ‘ کو جرمنی میں ماہانہ 1100 یورو دیے جاتے ہیں

جرمن میڈیا نے سیکیورٹی کے پیشِ نظر اس شخص کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔تصویر کے کاپی رائٹBILD SCREENSHOT
Image captionجرمن میڈیا نے سیکیورٹی کے پیشِ نظر اس شخص کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔
تیونس سے تعلق رکھنے والا ایک شخص جو کہ مبینہ طور پر القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کا محافظ تھا، 1997 سے جرمنی میں مقیم ہے اور اسے ویلفیئر کی مد میں ماہانہ 1168 یورو دیے جاتے ہیں۔
یہ اطلاع علاقائی حکومت نے اس وقت شائع کی جب انتہائی دائیں بازو کی جماعت نے سمیع اے نامی ایک شخص کے بارے میں معلومات کی درخواست کی۔
جرمن میڈیا نے سکیورٹی کے پیشِ نظر اس شخص کا مکمل نام ظاہر نہیں کیا ہے۔
اس شخص نے جہادیوں سے تعلق کی تردید کی ہے۔ اس شخص کو ملک بدر کر کے تیونس بھیجنے کو رد کر دیا گیا ہے کیونکہ خدشات ہیں کہ وہاں اس پر تشدد کیا جا سکتا ہے۔
اسامہ بن لادن القاعدہ کے سربراہ تھے اور مئی 2011 میں امریکی فورسز کے آپریشن میں پاکستان میں مارے گئے۔
مزید پڑھیے
9/11 کے حملوں میں خودکش پائلٹس میں سے کم از کم تین القاعدہ کے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں موجود سیل کے اراکین تھے۔
2005 میں انسدادِ دہشتگردی کے ایک مقدمے میں ایک گواہ کے بیان کے مطابق سمیع اے نے سنہ 2000 میں کئی ماہ تک اسامہ بن لادن کے محافظ کے طور پر افغانستان میں کام کیا۔ انھوں نے اس الزام کی تردید کی ہے تاہم جج نے گواہ کی شہادت پر یقین کیا تھا۔
2006 میں سمیع اے کے القاعدہ کے ساتھ روابط کی تفتیش کی تاہم ان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی۔
اوساما بن لادن جہادی تنظیم القاعدہ کے سربراہ تھے، انھوں نے 9/11 کے حملوں کی منظوری دی اور 2011 میں امریکی فورسز کے ہاتھوں پاکستان میں مارے گئے۔تصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionاوساما بن لادن جہادی تنظیم القاعدہ کے سربراہ تھے، انھوں نے 9/11 کے حملوں کی منظوری دی اور 2011 میں امریکی فورسز کے ہاتھوں پاکستان میں مارے گئے۔
سمیع اے اپنی جرمن اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ مغربی جرمنی کے شہر بوچم میں مقیم ہیں۔
انھوں نے 1999 میں جرمنی میں رہائش کا عبوری اجازت نامہ حاصل کیا اور انھوں نے ٹیکنالوجی کے حوالے سے متعدد کورسز کیے اور 2005 میں اس شہر منتقل ہوئے۔
2007 میں ان کی پناہ کی درخواست اس لیے مسترد کر دی گئی کیونکہ حکام نے انھیں سکیورٹی کے حوالے سے خطرہ قرار دیا تھا۔ انھیں ہر روز مقامی تھانے میں حاضری لگانی پڑتی ہے۔
جرمن حکومت کا موقف ہے کہ مشتبہ جہادیوں کو شمالی افریقہ میں تشدد کا خطرہ ہے۔ اسی لیے تیونس اور ہمسایہ عرب ممالک میں مہاجرین کو واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ انسانی حقوق کی یورپی کنوینشن کے مطابق تشدد پر پابندی ہے۔

No comments:

Post a Comment