Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-43751876
انڈیا میں جانوروں کی ہڈیاں اکٹھی کرنے والے خوف کا شکار کیوں؟
انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں بسنے والی دلت برادری کے ہزاروں افراد کئی نسلوں سے اپنی گزر بسر جانوروں کی ہڈیاں چن کر کر رہے ہیں، لیکن گذشتہ برس سے وہ ایک خوف کی فضا میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں جس کی وجہ جانور کے ذبیحے کے بعد سے حکومت کی طرف سے کیا جانے والا کریک ڈاؤن ہے۔
فوٹوگرافر انکیت سرینیواس نے ان میں سے کچھ افراد سے بات کی۔
55 سالہ بریجواسی لال کہتے ہیں کہ لوگ جب ہمیں ہڈیاں اٹھاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ خود ہی قیاس کر لیتے ہیں کہ ہم ذیبحہ خانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
لال ان ہزاروں دلت برادری کے افراد میں شامل ہیں جو ان جمع شدہ ہڈیوں کو بیچ کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔
گذشتہ سال کے دوران اس برادری سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد نے بتایا کہ ان پر اس شک کی بنا پر حملہ کیا گیا کہ وہ ذبح کی گئی گائے کی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔
لال بھی کہتے ہیں کہ انھیں چند بار نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھیے
اتر پردیش میں مارچ 2017 میں ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے بعد حکام نے بہت سے ذبیحہ خانے بند کر دیے گئے۔
انڈیا کی 18 ریاستوں میں پہلے ہی گائے کے ذبیحے پر پابندی تھی لیکن اس پابندی کے اطلاق کو بزور طاقت یقینی بنانے کی باضابطہ کوششوں کا آغاز 2014 میں وفاق میں بی جے پی کی حکومت کے آنے کے بعد ہوا۔
اس جماعت کا موقف ہے کہ انڈیا کی اکثریتی آبادی کی نظر میں گائے مقدس ہے اس لیے اس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ اگرچہ انڈیا میں ہندو مذہب کے ماننے والوں کی اکثریت ہے لیکن وہاں بسنے والے لاکھوں افراد جن میں ہندوؤں کی دلت برادری سمیت مسلمان اور مسیحی آبادی گائے کا گوشت کھاتی ہے۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اتر پردیش میں رہنے والے کتنے دلت ہڈیوں کو اکٹھا کرنے کا کام کرتے ہیں تاہم ان میں زیادہ تر خان پور، آلہ آباد اور گونڈا کے کی ان فیکٹریوں کے قریب آباد ہیں جو جانوروں کی ہڈیوں کو کرش کر کے مختلف قسم کے کیمیکل بنانے میں استعمال کرتی ہیں۔
لال کہتے ہیں کہ ’ہم ایک کلو ہڈیوں سے فقط تین سے پانچ روپے کما پاتے ہیں۔ یہ کوئی بہت باعزت پیشہ نہیں ہے لیکن کم از کم اس سے میرے خاندان کے کھانے کا انتظام ہو جاتا ہے۔‘
مگر لال کہتے ہیں کہ وہ بہت خوفزدہ ہیں کیونکہ گذشتہ کچھ سالوں میں درجن بھر افراد گائے کے تحفظ کے نام پر قتل ہوئے۔ بہت سے مرنے والے مسلمان تھے اور ان میں سے بہت ساروں کو افواہوں کی بنا پر قتل کیا گیا۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم بہت احتیاط سے کام کرتے ہیں۔ جب اندھیرا ہونے لگے تو کام شروع کرتے ہیں اور دس بجے سے پہلے اپنا کام مکمل کر لیتے ہیں۔‘
’ہم دلت ہیں اس لیے ہم بہت سے لوگ کی نظر میں قابل عزت نہیں۔ اور اس نوکری کے ساتھ ہم حقیقی معنوں میں اچھوت بن جاتے ہیں۔ جب لوگ ہمیں سڑک پر گزرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔‘
20 کروڑ دلت برادری کو انڈیا کا قانون تو تحفظ دیتا ہے لیکن حقیقت میں انھیں روزمرہ زندگی میں بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’آپ لوگ گلے سڑے ہوئے گوشت کی بدبو کا ادراک بھی نہیں کر سکتے۔ لوگ سمجھتے ہیں ہم اس کے عادی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ بس ہمارے پاس کوئی اور آپشن نہیں ہے۔‘
سگریو جو اپنا پورا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہتے ہیں کہ اس کام کو کرنے کے لیے بہت سی جسمانی اور ذہنی طاقت درکار ہوتی ہے۔
’ہم 47 کلومیٹر تک مرے ہوئے جانور کی تلاش میں چلتے ہیں۔ جب جانور مر جائیں تو لوگ ہمیں تب بھی بلاتے ہیں۔ یہ کوئی باعزت کام نہیں۔ لوگ ہمیں اپنے گھر بلا کر پانی کے لیے بھی نہیں پوچھتے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کے کام کے ساتھ بھی ناانصافی برتنا ہوتا ہے۔
’لیکن اس کے بارے میں سوچیے، ہم معاشرے میں ایک اہم کام کر رہے ہیں۔ ہم جانوروں کی لاشوں کو میدانوں اور لوگوں کے گھروں سے لے کر جاتے ہیں۔ لیکن کوئی ہماری عزت نہیں کرتا۔‘
وہ پرامید ہیں کہ ان کے بچے جنھوں نے اب ہڈیاں چننے کا کام شروع کر دیا ہے وہ ایک دن کوئی اور کام تلاش کر لیں گے۔
’یہ مشکل لگتا ہے۔ وہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور انھیں اس وقت کوئی بھی کام نہیں دے گا جب اسے پتہ چلے گا کہ یہ ہڈیاں چنا کرتے تھے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنے لیے کچھ اور تلاش کریں۔‘
بیساکھو نے بھی اپنا پورا نام نہ ظاہر کرنے کو کہا اور مجھے کہنے لگے کہ ’میں جانتا ہوں کہ آپ کے لیے یہاں کھڑے ہونا بہت دشوار ہے لیکن یہی ہم کئی دہائیوں سے کر رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ کاش مجھے کوئی اور نوکری مل سکتی ۔۔۔‘
وہ گائے کے تحفظ کے لیے تحریک چلانے والے گروہوں کی جانب سے مسلمانوں اور دلتوں پر حملوں کے باعث بھی پریشان ہیں۔
’ہم جانوروں کو نہیں مارتے، ہم صرف ان کے مرنے کے بعد ان کی ہڈیاں اکھٹی کرتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگ انجان ہیں اور وہ ہمیں گالیاں دیتے ہیں۔‘
’میں نے بہت سی بیمار گائیں دیکھی ہیں اور اکثر زخمی حالت میں بھی۔ میری خواہش ہے کہ لوگ ہمارے لیے مشکل پیدا کرنے کے بجائے صحیح معنوں میں گائے کا خیال رکھیں۔‘
اس پیشے سے منسلک افراد کئی میل تک جانور کی تلاش میں چلتے ہیں اور جب اس کی لاش مل جائے تو اسے یا تو اپنے کندھوں پر یا پھر سائیکل پر لاد کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جاتے ہیں۔
کبھی کھبار یہ لوگ اس کام کے دوران زخمی بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ ہسپتال سے علاج نہیں کروا سکتے جس کی وجہ ان کی انتہائی کم آمدن ہے۔
بیساکھو کہتے ہیں کہ ’ایک دن ہو سکتا ہے کہ مجھے 50 کلو ہڈیاں مل جائیں لیکن ایسا دن بھی ہوتا ہے جب مجھے شاید پانچ کلو سے بھی کم ہڈیاں ملیں۔ اور کوئی دن ایسا بھی آتا ہے جب مجھے کچھ نہیں ملتا۔ اس کاروبار میں کوئی گارنٹی نہیں۔‘
پانچ افراد پر مشتمل کنبے کو کھلانے کے لیے انھیں اکثر ادھار پیسے بھی لینے پڑتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ تشدد کے خطرات نے ان کی زندگی کو مشکل تر بنا دیا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے صبح کے وقت ہڈیوں کو چن کر واپس آ رہے تھے تو انھیں کچھ افراد نے روک لیا۔
’میری سائیکل پر ایک بڑے جانور کی لاش رکھی تھی۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا میں نے گائے کو مارا ہے۔ میں نے انھیں بتانے کی کوشش کی کہ وہ غلط سمجھ رہے ہیں لیکن پھر بھی انھوں نے مجھے گالیاں دیں۔ اب بھی جب میں اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو خوفزدہ ہو جاتا ہوں۔‘
چھوٹو بھی اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے وہ ان چند لوگوں میں سے ہیں جو اس کام کو چھوڑ چکر کسی گھر میں کام کرتے ہیں لیکن کبھی کھبار جب اضافی پیسوں کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ہڈیاں تلاش کرتے ہیں۔
لیکن وہ پرامید ہیں کہ وہ جلد ہی ہڈیاں چننے کا کام مکمل طور پر چھوڑ دیں گے۔
’ایسی نوکری کرنے کی کیا ضرورت جب لوگ ہی اس کام کو نہیں سمجھتے؟ ہم ماحول کو صاف کرتے ہیں لیکن بدلے میں ہمیں ذلت اور خطرات کا سامنا ہے۔‘
’کیا ہم سے باعزت برتاؤ کرنا اتنا مشکل ہے۔‘
انکیت سرینواس فری لانس فوٹوگرافر ہیں جو آلہ آباد میں رہتے ہیں۔
۔
No comments:
Post a Comment