Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-43750096
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے: سپریم کورٹ
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ارکان پارلیمان کی نااہلی کی مدت کے تعیّن سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے یعنی اس شق کے تحت نااہل ہونے والا شخص عمر بھر الیکشن نہیں لڑ سکتا۔
سابق وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کے قائد میاں نواز شریف اور حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر خان ترین کی نااہلی بھی آئین کے اُسی آرٹیکل کی تحت ہی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے آرٹیکل ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو جمعے کو سنایا گیا۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کا فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا ہے اور کمرہ عدالت میں اُنھوں نے ہی اس فیصلے کے آپریشنل حصے کو پڑھ کر سنایا۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف امیدوار کی اہلیت جانچنے کے لیے ہے، اس میں نااہلی کی معیاد کا ذکر نہیں۔
پچاس سے زائد صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے مشترکہ طور پر دیا ہے جبکہ اس بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید نے اس ضمن میں آٹھ صفحات پر مشتمل ایک اضافی نوٹ بھی تحریر کیا ہے۔
اگرچہ حکمراں جماعت کے قائد میاں نواز شریف آئین کے آرٹیکل کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ میں دائر ہونے والی درخواستوں کا حصہ نہیں تھے تاہم اُن کی طرف سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو ہے۔
عدالت نے آئین کے اس آرٹیکل کی تشریح کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالتی معاون بھی مقرر کیے تھے جس میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی سابق صدر مرحومہ عاصمہ جہانگیر بھی شامل تھیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عوام کو صادق اور امین قیادت ملنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہوتا آئین میں بھی لکھا ہوا ہے کہ ایسے شخص کی نااہلی تاحیات رہے گی اس لیے جب تک عدالتی ڈیکلریشن موجود ہے، نااہلی رہے گی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا جب تک جس بنیاد پر نااہلی کا فیصلہ کیا گیا ہے اگر اس فیصلے کے خلاف کوئی فیصلہ آجاتا ہے اور تو یہ نااہلی غیرموثر ہوجائے گی۔
آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح کے مقدمے میں نواز شریف درخواست گزار نہیں تھے تاہم ان کی نااہلی آئین کے اسی آرٹیکل کے تحت ہوئی تھی۔
حالیہ کچھ عرصے کے دوران سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خلاف متعدد فیصلے دیے گئے ہیں جن میں نواز شریف کی بطور رکن پارلیمنٹ نااہلی، اس فیصلے کے خلاف نظرثانی کی اپیل مسترد ہونا، نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے الگ کرنا، ان کی طرف سے سینیٹ کے انتخابات میں امیدواروں کو جاری کیے گئے ٹکٹ ہولڈرز کو آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت کے علاوہ ان کے خلاف دائر ہونے والے نیب کے تین ریفرنس کو یکجا کرنے کی درخواستوں کو مسترد کرنا شامل ہیں۔
’فیصلہ پہلے آتا ہے اور ٹرائل اور مقدمہ بعد میں کیا جاتا ہے‘
نواز شریف کی جانب سے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم وفاقی وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے فیصلے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ پہلے آتا ہے اور ٹرائل اور مقدمہ بعد میں کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'آج بھی نیب ٹرائل کورٹ میں جاری ہے۔ کوئی بھی دستاویز موجود نہیں جس کے مطابق نواز نے اپنے بیٹے سے تنخواہ لی ہو۔'
مریم اورنگزیب نے کہا کہ 'نواز شریف ابھی تک کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوا اور اسی الزام کی بنیاد پر انھیں نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔'
انھوں نے کہا کہ 'پہلے نااہل کیا پھر پارٹی کی صدارت سے ہٹایا اور سینیٹ کے الیکشن سے روکا گیا اور آج نااہل کر دیا۔ جس وزیراعظم کو پاکستان کے عوام نے ووٹ سے منتخب کیا اس کا فیصلہ پاکستان کے عوام کریں گے۔'
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت تاحیات نااہلی کا اطلاق ان کے کیس پر نہیں ہوتا۔
ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ ’مجھے ہمیشہ سے یقین ہے کہ 62 ون ایف کے تحت نااہلی عمر بھر کے لیے ہے لیکن یہ میرے معاملے میں قابل اطلاق نہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ان کیی نظرِثانی کی اپیل عدالت میں موجود ہے اور انھیں امید ہے کہ انصاف ہوگا۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے ہی رہنما شاہ محمود قریشی نے اس فیصلہ کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت جہانگیر ترین کی نااہلی کا فیصلہ تسلیم کرتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’نواز شریف کو اپنا رویہ تبدیل کرنا ہوگا۔ سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی عدالت ہے اور تمام فیصلے آپ کی مرضی کے نہیں آ سکتے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس فیصلے کے بعد ٹوئٹر پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ ’میرا ماننا ہے کہ سیاستدانوں کے مستقبل کے بارے میں ایسے فیصلے پاکستان کے عوام کو کرنے چاہییں۔ بدقسمتی سے مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی نے خود ہی ہماری سیاست کو عدالتی رنگ دے دیا ہے۔ نہال، نواز، اور ترین کو اب اپنے کیے کے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔‘
No comments:
Post a Comment