Source: http://www.bbc.com/urdu/science-43708276
’جدید انسان سعودی عرب میں 85 ہزار سال قبل آباد تھے‘
ایک تازہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جدید انسان موجودہ سعودی عرب میں 85 ہزار سال قبل آباد تھے۔
حال ہی میں وہاں سے ملنے والی انسانی انگلیوں کی ہڈیوں کی آئیسوٹوپ تکنیک سے جانچ کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے۔
ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ جدید نوع انسان کی انگلیوں کی ہڈیاں ہیں۔
یہ دریافت اور اس سے قبل اسرائیل، چین اور آسٹریلیا میں ملنے والے باقیات ایسے شواہد ہیں جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ بنی نوع انسان پونے دو لاکھ سال قبل افریقہ سے باہر وسیع علاقوں میں پھیل گئے تھے۔
پہلے یہ خیال تھا کہ 60 ہزار سال سے پہلے بنی نوع انسان افریقہ کے باہر نہیں گئے تھے۔
تازہ تحقیق 'نیچر ایکولوجی اینڈ ایوولیوشن' نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سے قبل سرزمین عرب میں ہونے والی کھدائی میں ایسے اوزار ملے تھے جن کے بارے میں یہ کہا گیا تھا کہ ابتدائی بنی نوع انسان نے ان کا استعمال کیا ہو گا لیکن ان کی کھوپڑیوں کے شواہد نہیں ملے تھے۔
سعودی عرب کے علاقے الوسطی میں کام کرنے والے محققین کو انگلیوں کی تین ہڈیوں میں سے درمیانی ہڈی ملی ہے۔ اس کے علاوہ اس انسان کے باقیات نہیں ملی ہیں۔
اس تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر ہوو گروکٹ نے کہا: ’یہ معمول کی بات ہے کہ تمام انسان اور جاندار اپنا کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہو جائيں گے۔'
آکسفورڈ یونیورسٹی کے محقق نے بتایا: 'ہم لوگ بہت خوش قسمت ہیں۔ عام طور پر اگر آپ کسی کا ایک حصہ پاتے ہیں تو آپ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہاں یہ ہڈی بالکل منفرد ہے۔'
ٹیم نے ہڈی کا تھری ڈی ماڈل بنانے کے لیے سی ٹی سکین کا سہارا لیا اور ان کا بنی نوع انسان اور ان سے قبل عہد حجر کے انسان (نینڈرتھل) کے باقیات سے موازنہ کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
اس میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ نیڈرتھل کے مقابلے میں جدید نوع انسان سے زیادہ مشابہ تھا کیونکہ نینڈرتھل کے ہاتھوں کی انگلیاں چھوٹی اور چپٹی ہوتی تھیں۔
اس مقام پر پائی جانے والی دوسری چیزوں سے عہد کا اندازہ لگانے کے لیے دو مختلف تکنیک کے استعمال سے کیا گيا۔
سعودی عرب کا موسم 85 ہزار سال پہلے آج سے بہت مختلف ہوا کرتا تھا۔
مون سون کی بارش نے ہری بھری جھیلیں بنائی تھیں جہاں دریائی گھوڑے جیسے جانور رہتے تھے۔ جنگلی مویشی اور بارہ سینگھے بھی وہاں افریقہ سے نقل مکانی کر کے پہنچے تھے۔
الوسطی پر ملنے والی مختلف باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ وہاں پتھر کے اوزار کے ساتھ مختلف اقسام کے جانور رہا کرتے تھے اور یہ اوزار جدید نوع انسان کے استعمال کے اوزار سے زیادہ مشابہ ہیں۔
ڈاکٹر گروکٹ کا خیال ہے کہ انسان اس خوش آمدید کرنے والے ماحول سے متاثر ہو کر وہاں آئے ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ دلچسپ بات ہے کہ ماضی میں کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ ہم ایشیا میں اس وقت تک نہیں پھیل سکتے تھے جب تک کہ ہمارے پاس جدید اوزار نہیں ہوتے۔ لیکن ہماری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں ہونے والی نقل مکانی میں جدید اوزار سے زیادہ موسمی تبدیلی زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔'
جنوبی افریقہ میں ہونے والی حالیہ تحقیق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی انسانی ارتقا میں دخیل ہے۔
بہرحال سعودی عرب میں کھدائی کے مقام سے یہ طے کرنا مشکل ہے کہ وہاں انسان کتنے سال تک آباد رہے۔ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ وہ وہاں مختصر عرصے تک کچھ سو یا ہزار سال ہی آباد رہے ہوں گے۔
یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہاں آباد لوگ از خود ختم ہو گئے یا نقل مکانی کرلی۔
ڈاکٹر گروکٹ کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا راز یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کیا واقعہ رونما ہوا۔
جینیاتی شواہد بتاتے ہیں کہ تمام زندہ غیر افریقی نسل کے لوگ وہاں سے کوئی 60 ہزار قبل نقل مکانی کی تھی۔ اب محققین ڈی این اے ڈیٹا اور آثار قدیمہ کے شواہد سے اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ بنی نوع انسان افریقہ سے باہر اس سے پہلے سے موجود تھے۔
اس ضمن میں یہ امکان بھی ہے کہ پہلے والے انسان ختم ہو گئے ہوں اور آج جو انسان آباد ہیں وہ بعد کی نقل مکانی کا نتیجہ ہیں۔
No comments:
Post a Comment