Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-43848066
انصاف کی امید کس سے کریں؟
انڈیا کی ریاست گجرات کی ہائی کورٹ نے جمعہ کو بی جے پی کی رہنما اور سابق وزیر مایا کوڈنانی اور کئی دیگر افراد کو گجرات فسادات کے تمام الزامات سے بری کر دیا۔
مایا کوڈنانی پر الزام تھا کہ انھوں نے گودھرا میں سابرمتی ٹرین کے ایک ڈبے میں ایودھیا سے واپس آنے والے 50 سے زیادہ ہندو زائرین کو ہلاک کیے جانے کے بعد احمدآباد کی ایک مسلم بستی میں مسلمانوں پر حملے کے لیے ہندوؤں کے ایک ہجوم کو مشتعل کیا تھا۔
اس واقع کی تفتیش سپریم کورٹ کی نگرانی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم نے کی تھی۔ احمد آباد کی ذیلی عدالت نے سنہ 2012 میں مایا کوڈنانی کو 28 برس قید کی سزا دی تھی۔ انھوں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
وہ فسادات کے دوران گجرات کی مودی حکومت میں وزیر تھیں اور سزا پانے والی وہ سب سے اہم حکومتی اہلکار تھیں۔ ہائی کورٹ نے انھیں ناکافی ثبوتوں کی بنا پر الزاما ت سے بری کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس سے قبل گذشتہ پیر کو حیدر آباد کی مکہ مسجد بم دھماکے کے سلسلے میں وہاں کی ایک ذیلی عدالت نے سوامی اسیمانند سمیت سبھی ملزموں کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیش کار اس دھماکے میں ملزمان کا ہاتھ ہونے کا الزام ثابت نہیں کر سکے۔
اس سے پہلے سوامی اسیم آنند نے اقبالیہ بیان میں دھماکے میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ انھوں نے ایک میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بھی اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔ دلچسپ پہلو یہ ہے مکہ مسجد دھماکے کے سلسلے میں تفتیش کاروں نے پہلے متعدد مسلمانوں کو گرفتار کیا وہ کئی برس تک جیل میں رہے اور جب مزید تفتیش ہوئی تو انھیں بے قصور پایا گیا۔
فسادات، فرضی تصادم اور بم دھماکوں کے کئی اہم مقدمات ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور تقریـباً ہر ہفتے کسی نہ کسی مقدمے سے یہ خبر آتی ہے کہ تفتیش کاروں نے جنھیں اپنا گواہ بنا کر پیش کیا تھا وہ منحرف ہوتے جا رہے ہیں۔
اہم گواہوں کے منحرف ہونے سے تفتیش کی کڑیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور ملزم کے خلاف جرم ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر کیس اور سمجھوتہ ایکسریس بم دھماکے جیسے اہم مقدمات میں درجنوں گواہ منحرف ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
معروف صحافی راج دیپ سر دیسائی نے انصاف کی موجودہ صورت حال پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا 'جب حکومت تبدیل ہوتی ہے تو ثبوت بھی بدل جاتے ہیں، الزامات بدل جاتے ہیں، تفتیش کار تبدیل ہو جاتے ہیں اور فیصلے بھی بدل جاتے ہیں۔ ان حالات میں جب ہر اہم مقدمے کو سیاسی رنگ دے دیا جاتا ہے تو پھر انصاف کے نظام پر کس طرح یقین کیا جائے۔'
ملک میں تفتیش کا نظام شدید سیاسی دباؤ میں ہے۔ تفتیش اب سیاست کی تابع ہوتی جا رہی ہے۔ پولیس اور سی بی آئی جیسے اداروں کی ساکھ بری طرح مجروح ہوئی ہے اور ان پر لوگوں کا یقین شکستہ ہو چکا ہے۔ امید کا آخری محور، ملک کی عدلیہ بھی اب ساکھ کے بحران سے گزر رہی ہے۔
چند ہفتے قبل سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججوں نے ایک غیر معمولی پریس کانفرنس میں ملک کے چیف جسٹس کے طریقۂ کار پر سوالات اٹھائے تھے۔ اب حزب اختلاف کی جماعتوں نے چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے مواخذے کی قرارداد پیش کی ہے۔ یہ صورت حال عدلیہ، حکومت اور ملک کی عوام کے لیے فکر کا باعث ہے۔
عدل کا نظام اگرچہ ملک کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہے اور اس کا عمل اتنا طویل ہے کہ انصاف ملتے ملتے اکثر وہ اپنا اثر اور مقصد کھو دیتا ہے لیکن اس کے باوجود عدلیہ عوام کی آخری امید ہے۔
انصاف کا یہ ادارہ پوری آزادی اور خود مختاری کے ساتھ اپنا کام کرتا رہا ہے۔ اس کی غیر جانبداری، خود مختاری اور اس کے وقار کا تحفظ ملک کے جمہوری نظام کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔
ملک کے عدل و انصاف کے نظام کو تنازعات اور شکوک سے پاک رکھنے کے لیے ججوں کی تقرری سے لے کر انصاف کے عمل تک ہر پہلو میں شفافیت لانے کی ضررت ہے۔ عدلیہ کی غیر جانبداری اور خود مختاری کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے اسے ہر طرح کی سیاست اور مداخلت سے پاک رکھا جائے۔
No comments:
Post a Comment