Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-40541285
تقسیم ہند کے بعد مسلمانوں کا سب سے بڑا بحران
اب سے ایک ہفتے بعد انڈیا کے صدر کا انتخاب ہونے والا ہے۔ اس صدارتی انتخاب میں دونوں ہی اہم امیدواروں کا تعلق دلت برادی سے ہے اور یہ بات طے ہے کہ ملک کا آئندہ صدر دلت ہو گا۔
یہ سماجی برابری کی جنگ میں دلت برادری کی ایک اہم کامیابی ہے۔ دلت صدیوں کی تفریق، اہانت اور مظالم کے خلاف ایک طویل عرصے سے نبرد آزما ہیں۔ انھیں آج بھی سماجی نفرتوں اور تفریق کا سامنا ہے لیکن سیاسی اعتبار سے وہ پہلے کے مقابلے میں کافی طاقتور ہوئے ہیں۔
آزادی سے پہلے انھیں بھیم راؤ امبیڈکر جیسا مفکر اور رہنما ملا جس نے دلتوں کے چھینے ہوئے وقار اور سماجی مساوات کے لیے ایک غیر معمولی تحریک کی قیادت کی۔ اس تحریک کو کانشی رام جیسے رہمنا نے دلتوں میں سیاسی بیداری کی لہر سے ایک نئی بلندی پر پہنـچایا۔
آج ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کسی بھی وقت ساڑھے پانچ سو ارکان میں سے تقریباً سو ارکان دلت اور قبائل برادیوں سے آتے ہیں۔ انڈیا کی بیشتر اسمبلیوں میں بھی دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہیں۔ تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں دلتوں کے لیے سیٹیں مختص ہونے سے وہ اب تعلیم اور روزگار میں بھی آگے آئے ہیں۔
ہندوستانی معاشرے میں دلتوں کی ایک نئی نسل ابھر رہی ہے۔ نوجوانوں کی یہ نئی نسل پر اعتماد، سیاسی طور پر بیدار اور قیادت کے لیے بے چین ہے۔ اٹھارہ فی صد آبادی کے ساتھ وہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔
ملک کی دوسری سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے۔ تعلیم، روزگار، صحت اور سیاسی نمائندگی کے اعتبار سے وہ اب ملک میں سب سے پیچھے ہیں۔ ان کی سماجی اقتصادی اور تعلیمی ہیئت ایک جیسی نہیں ہے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں کی مشکلیں بڑھ گئی ہیں۔ انھیں صرف ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا ہی خوف نہیں ہے، حکومت نے غیر قانونی مذبح خانوں کو بند کرنے کے نام پر اور مویشیوں کی خرید وفروخت کے نئے ضابطوں سے مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک لمحے میں بے روزگار کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی چیلنوں پر قوم پرستی کی لہر جاری ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پیغامات پوسٹ اور تبصروں کا ایک منظم سلسلہ ہے۔
حکمراں بی جے پی ایک ہندو نواز پارٹی ہے اور ہندوتوا کے سیاسی اور مذہبی نظریے میں یقین رکھتی ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وہ ملک کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے تصور پر عمل پیرا ہے جس میں مسلم اور مسیحی اقلیتوں کےلوگ دوسرے درجے کے شہری ہوں گے۔
مسلمانوں نے ابتدا سے ہی بی جے پی کی مخالفت کی ہے۔ اب جب کہ بی جے پی اپنے زور پر اقتدار میں ہے اس نے مسلمانوں کو پوری طرح مسترد ہی نہیں بلکہ محدود کر دیا ہے۔ اپوزیشن انتہائی کمزور اور پوری طرح منتشر ہے۔ قوم پرستی کے اس دور میں میڈیا حکومت نواز ہو چکا ہے۔ بی جے پی کا سیاسی اثر بڑھتا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتیں کوئی نظریاتی یا سیاسی چیلنج بننے کے بجائے اپنے باقی ماندہ وجود کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
بہت سے مسلمانوں کا خیال ہے کہ انھیں تقسیم ہند کے بعد اب تک کے سب سے سنگین بحران کا سامنا ہے لیکن کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ صرف مسلمانوں کا نہیں ملک کے اعتدال پسندوں اور جمہوریت نواز اکثریت کا بحران ہے۔ برطانوی مبصر اور رکن پارلیمان میگھناد دیسائی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ انڈیا کے 18 کروڑ مسلمانوں کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے اپنی ایک علیحدہ سیاسی پارٹی بنانی چاہیے۔
مسلمان بھارتی جمہوریت میں ہمیشہ مین سٹریم سیاسی جماعتوں یاقومی دھارے سے وابستہ رہے ہیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کیا اور انھیں غربت اور پسماندگی میں دھکیلتی گئیں۔ ان دشوار مراحل میں بھی مسلمانوں کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا۔ اس نے مسلمانوں کی علیحدہ سیاسی جماعت کے تصور کو کبھی قبول نہیں کیا۔
بھارتی جمہوریت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ملک کی پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی سب سے نیچے آگئی ہے۔ مسلمانوں کی سب سے بڑی آبادی والی ریاست اتر پردیش میں حکمراں جماعت کے ارکان اسمبلی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ مسلمان بی جے پی کو ایک ہندوتوا وادی اور مسلم مخالف جماعت سمجھتے آئے ہیں اور مستقبل میں ان کی اس سوچ کو اور بھی تقویت حاصل ہو گی۔ وہ بی جے پی کو صرف اپنے لیے نہیں ملک کی جمہوریت کے لیے بھی خطرہ سمجھتے ہیں۔
ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی جس طرح کی فضا بنی ہوئی اس ماحول میں ملک کے طول و عرض میں ہر جگہ مسلمانوں میں بے بسی، گبھراہٹ اور بے چینی پھیلی ہوئی ہے۔ ہر طرف بحث و مباحثے چھڑے ہوئے ہیں۔ ایک نوجوان دلت رہنما نے کچھ دنوں پہلے کہا تھا کہ مسلمانوں کو اوپر لانے کے لیے ایک امبیڈکر کی ضرورت ہے۔ شاید انھیں بے چینیوں سے کوئی امبیڈکر اور کانشی رام پیدا ہو جو انڈیا کی خطرے میں گھری ہوئی جمہوریت کو درپیش چیلنجز میں بھارتی مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی کر سکے۔
No comments:
Post a Comment