Saturday 28 April 2018

IND: MULTI-FAITHS AND MULTI-CULTURAL CHARACTER IN DEFICIT


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-43932490

’انڈیا کا کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے‘


مودیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionرپورٹ کے مطابق انڈیا کے وزیراعظم تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے لوگ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے منسلک ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے ناروا زبان کا استعمال کرتے ہیں

بین الاقوامی مذہبی آزادی کے امریکی ادارے یو ایس سی آئی آر ایف نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈیا میں مذہبی آزادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
یہ رپورٹ اس لیے اہم ہے کیونکہ یو ایس سی آئی آر ایف ایک آئینی ادارہ ہے اور اس کا قیام سنہ 1998 میں بین الاقوامی مذاہب کی آزادی کے ایکٹ کے تحت عمل میں آیا تھا۔ اس تنظیم کا کام امریکی حکومت کو مشورہ دینا ہے۔
ادارے کی سنہ 2018 کی رپورٹ میں انڈیا میں مذہبی آزادی کے تعلق سے نریندر مودی حکومت کے رویے پر کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کا کثیر مذہبی، کثیر الثقافتی کردار خطرے میں ہے کیونکہ وہاں ایک مذہب کی بنیاد پر جارحانہ طریقے سے قومی شناخت بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس رپورٹ میں انڈیا کی دس ریاستوں اتر پردیش، آندھرا پردیش، اڑیسہ، بہار، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، مہاراشٹر، گجرات اور کرناٹک کا ذکر کیا گيا ہے جہاں مذہبی آزادی کو زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ جبکہ انڈیا کی باقی ریاستوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں مذہبی اقلیتیں زد پر نہیں ہیں۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے رواں سال 12 ممالک کو دوسرے درجے میں رکھا ہے جنھیں 'كنٹريز آف پرٹیكولر كنسرن' یا سی پی سی کہا گیا ہے۔ یہ ایسے ممالک ہیں جہاں مذہبی آزادی کے تعلق سے حالات تشویش ناک ہیں۔

رپورٹتصویر کے کاپی رائٹUSCIRF/BBC
Image captionانڈین حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مودی حکوت نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے: یو ایس سی آئی آر ایف

ان ممالک میں افغانستان، آزربائیجان، بحرین، کیوبا، مصر، انڈیا، انڈونیشیا، عراق، قزاقستان، لاؤس، ملائیشیا اور ترکی شامل ہیں۔
انڈیا کے حوالے سے مخصوص پانچ صفحات کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے 'وزیراعظم تشدد کی مذمت تو کرتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت کے لوگ انتہا پسند ہندو تنظیموں سے منسلک ہیں اور ان میں سے بہت سے افراد مذہبی اقلیتوں کے تعلق سے ناروا زبان کا استعمال کرتے ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انڈین حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مودی حکوت نے اسے روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔

صرف تنقید کافی نہیں

اس رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے متاثرین کو انصاف نہ ملنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’مودی انتظامیہ نے ماضی میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا ہے۔ ان میں سے کئی پر تشدد فسادات ان (مودی) کی پارٹی کے لوگوں کی اشتعال انگیز تقاریر کے سبب ہوئے۔‘

مظاہرہتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionاس رپورٹ میں فرقہ وارانہ تشدد اور فسادات کے متاثرین کو انصاف نہ ملنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے

اس رپورٹ میں گائے کو ذبح کرنے کے شبہے پر تشدد، مسیحی مبلغین پر دباؤ اور ان کے خلاف تشدد، غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے این جی او کے کام کو روکنا اور تبدیلی مذہب مخالف قانون پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
رپورٹ میں انڈیا کی عدلیہ کی تعریف بھی کی گئی ہے۔
یو ایس سی آئی آر ایف نے کہا ہے کہ انڈیا میں ایک آزاد عدلیہ ہے جس نے بہت سے معاملات میں بامعنی مداخلت کی ہے۔ اس ضمن میں مثال کے طور پر ہادیہ کے قبول اسلام کا ذکر ہے جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا 'ہر بالغ شہری کو اپنی شادی کا فیصلہ کرنے کا حق ہے۔'
یہ بھی پڑھیے
اس رپورٹ میں امریکی حکومت کو دس تجاویز دی گئی ہیں جن میں انڈیا کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں ان معاملات کو اٹھانا اور انڈیا میں انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کی حالت میں بہتری لانے کے لیے دباؤ ڈالنا وغیرہ شامل ہے۔
اس سے قبل انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا تھا کہ ’انڈین حکومت مذہبی اقلیتوں کے خلاف سنہ 2017 میں ہونے والے حملوں کی قابل اعتماد تفتیش کرانے یا انھیں روکنے میں ناکام رہی ہے۔‘

No comments:

Post a Comment