ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/09/563/
AMERICAN MILITARY KILLED BBC REPORTER AHMED KHAIL AT NATO
AMERICAN MILITARY KILLED BBC REPORTER AHMED KHAIL AT NATO
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/09/110908_nato_admit_fz.shtml
16:52 GMT 21:52 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعرات 8 ستمبر
نامہ نگار کی ہلاکت، امریکی فوجی کی غلطی
افغانستان میں نیٹو کی کمان میں تعینات کثیرالمکی فوج ایساف نے اعتراف کیا ہے کہ اس سال جولائی میں بی بی سی کا نامہ نگار احمد امید خپل واک اس کی غلطی سے ہلاک ہو گئے تھے۔
ایساف نے کہا ہے کہ ایک امریکی فوجی نے پشتو بولنے والے اس صحافی کو صوبۂ ارزگان کے قصبے ترین کوٹ میں خود کش حملہ آوور سمجھ کر ہلاک کر دیا تھا۔
امریکی فوج کی اس کارروائی میں انیس افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں احمد امید خپل واک بھی شامل تھے۔
نیٹو نے ان کی ہلاکت کے بعد ایک انکوئری شروع کر دی تھی۔
نیٹو کی انکوئری کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ خپل واک ایساف فوج کے حملے کے وقت غسل خانے میں چھپ گئے تھے۔
انکوئری رپورٹ کے مطابق خپل واک کو جس وقت ہلاک کیا گیا اس وقت ان کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس امریکی فوجی خود کش دھماکے کرنے کا بٹن یا ٹریگر سمجھا۔
ایساف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہخپل واک کی موت انتہائی افسوس ناک ہے اور وہ ان کے خاندان والوں سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔
بی بی سی گلوبل نیوز کے ڈائریکٹر پیٹر ہورکس نے ایک بیان میں احمد امید واک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ صحافیوں کا ہر ممکن طریقے سے تحفظ ہونا چاہیے تاکہ دنیا ان کی خبریں سن سکیں۔
خیال رہے کہ احمد امید خپل واک اس سال جولائی کے مہینے میں طالبان کے ایک حملے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ وہ شدت پسندوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔
خپل واک کی ہلاکت کے بعد متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں جس وجہ سے بی بی سی نے مطالبہ کیا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ احمد امید کن حالات میں مارے گئے۔
بی بی سی نے ایک بیان میں افغانستان میں نیٹو کی کمان کے تحت تعینات بین الاقوامی افواج سے کہا تھا کہ وہ احمد کی ہلاکت کی تحقیقات کرے اور اس کے نتائج بی بی سی اور احمد کے لواحقین کو بتائے۔
پچیس سالہ احمد امید اس وقت ہلاک ہوئے جب ارزگان صوبے کے قصبے ترین کوٹ میں ایک ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس حملہ میں کئی دیگر افراد بھی
ہلاک ہوئے۔
16:52 GMT 21:52 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعرات 8 ستمبر
نامہ نگار کی ہلاکت، امریکی فوجی کی غلطی
افغانستان میں نیٹو کی کمان میں تعینات کثیرالمکی فوج ایساف نے اعتراف کیا ہے کہ اس سال جولائی میں بی بی سی کا نامہ نگار احمد امید خپل واک اس کی غلطی سے ہلاک ہو گئے تھے۔
ایساف نے کہا ہے کہ ایک امریکی فوجی نے پشتو بولنے والے اس صحافی کو صوبۂ ارزگان کے قصبے ترین کوٹ میں خود کش حملہ آوور سمجھ کر ہلاک کر دیا تھا۔
امریکی فوج کی اس کارروائی میں انیس افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں احمد امید خپل واک بھی شامل تھے۔
نیٹو نے ان کی ہلاکت کے بعد ایک انکوئری شروع کر دی تھی۔
نیٹو کی انکوئری کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ خپل واک ایساف فوج کے حملے کے وقت غسل خانے میں چھپ گئے تھے۔
انکوئری رپورٹ کے مطابق خپل واک کو جس وقت ہلاک کیا گیا اس وقت ان کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس امریکی فوجی خود کش دھماکے کرنے کا بٹن یا ٹریگر سمجھا۔
ایساف نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہخپل واک کی موت انتہائی افسوس ناک ہے اور وہ ان کے خاندان والوں سے دلی ہمدردی رکھتے ہیں۔
بی بی سی گلوبل نیوز کے ڈائریکٹر پیٹر ہورکس نے ایک بیان میں احمد امید واک کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ صحافیوں کا ہر ممکن طریقے سے تحفظ ہونا چاہیے تاکہ دنیا ان کی خبریں سن سکیں۔
خیال رہے کہ احمد امید خپل واک اس سال جولائی کے مہینے میں طالبان کے ایک حملے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔ اس وقت یہ اطلاعات تھیں کہ وہ شدت پسندوں کی گولی سے ہلاک ہوئے۔
خپل واک کی ہلاکت کے بعد متضاد اطلاعات سامنے آئی تھیں جس وجہ سے بی بی سی نے مطالبہ کیا تھا کہ اس بات کی تحقیقات کی جائیں کہ احمد امید کن حالات میں مارے گئے۔
بی بی سی نے ایک بیان میں افغانستان میں نیٹو کی کمان کے تحت تعینات بین الاقوامی افواج سے کہا تھا کہ وہ احمد کی ہلاکت کی تحقیقات کرے اور اس کے نتائج بی بی سی اور احمد کے لواحقین کو بتائے۔
پچیس سالہ احمد امید اس وقت ہلاک ہوئے جب ارزگان صوبے کے قصبے ترین کوٹ میں ایک ٹی وی اور ریڈیو سٹیشن پر شدت پسندوں نے حملہ کیا۔ اس حملہ میں کئی دیگر افراد بھی
ہلاک ہوئے۔
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم ان کا کہنا
تھا کہ انہوں نے احمد امید کو ہلاک نہیں کیا۔ انہوں نے احمد کی ہلاکت کا الزام حکومتی افواج پر عائد کیا تھا جبکہ ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ احمد امید کو امریکی فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔
احمد کے بھائی کا کہنا ہے کہ احمد نے انہیں دو ٹیکسٹ مسیج بھیجے تھے۔ ایک میں لکھا تھا کہ ’میں چھپا ہوا ہوں، موت آچکی ہے‘ اور دوسرے میں لکھا تھا کہ ’اگر میں مر جاؤں تو میرے لیے دعا کرنا‘۔
احمد سنہ دو ہزار آٹھ سے بی بی سی کے ساتھ وابستہ تھے۔
تھا کہ انہوں نے احمد امید کو ہلاک نہیں کیا۔ انہوں نے احمد کی ہلاکت کا الزام حکومتی افواج پر عائد کیا تھا جبکہ ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کا کہنا تھا کہ احمد امید کو امریکی فوجیوں نے ہلاک کر دیا۔
احمد کے بھائی کا کہنا ہے کہ احمد نے انہیں دو ٹیکسٹ مسیج بھیجے تھے۔ ایک میں لکھا تھا کہ ’میں چھپا ہوا ہوں، موت آچکی ہے‘ اور دوسرے میں لکھا تھا کہ ’اگر میں مر جاؤں تو میرے لیے دعا کرنا‘۔
احمد سنہ دو ہزار آٹھ سے بی بی سی کے ساتھ وابستہ تھے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment