Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44328065
جنسی ہراس: بحریہ کالج کی طالبات کے تحریری بیانات، استاد کی معطلی کی درخواست
فیڈرل بورڈ آف ایجوکیشن نے بحریہ کالج کی 'درجنوں طالبات' کو امتحان کے دوران جنسی طور پر ہراساں کرنے والے لیکچرر کو معطل کی درخواست متعلقہ حکام کو بھجوائی ہے جبکہ طالبات سے تحریری بیانات لیے جا رہے ہیں۔
بحریہ کالج کی طالبات کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تفصیلات جاری ہونے کے بعد بحریہ کالج کی انتظامیہ نے فیڈرل بورڈ کو شکایت کی جس پرادارے نے دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
بی بی سی سے گفتگو میں ایف ڈی ای کے ترجمان حسنات احمد قریشی نے تصدیق کی کہ طالبات کو ہراساں کرنے والے استاد کی معطلی کے لیے درخواست دینے کے بعد ہم اس کی منظوری کے منتظر ہیں جبکہ کمیٹی کی جانب سے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔
تاہم بی بی سی کو باوثوق ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دو رکنی تحقیقاتی کمیٹی جس میں پروفیسر عطا محمد اور بلقیس نبی شامل ہیں نے تاحال اپنی تحقیقات کی شروعات نہیں کیں بلکہ ان میں سے ایک رکن کو تاحال یہ بتایا بھی نہیں گیا کہ انھیں کسی کمیٹی کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ادھر کالج کی انتظامیہ نے گذشتہ روز جمعرات کو طالبات سے بیانات لینے اور پوچھ کچھ کا سلسلہ شروع کیا ہے اس میں پاکستان نیوی کے اعلیٰ حکام بھی شامل ہوئے۔
بحریہ کالج اسلام آباد میں جنسی طور پر ہراسگی کا شکار ہونے والی بارہویں جماعت کی طالبات اب اپنا آخری پریکٹیکل دینے کے لیے کالج جا رہی ہیں۔
بی بی سی سے گفتگو میں کچھ طالبات نے بتایا کہ وہ 'ہمارا ایک گروپ 21 بچیوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اپنے فزکس کے پریکٹیکل کے بعد جب ہم فارغ ہوئیں تو ہمیں ہماری ٹیچر پرنسپل کے پاس لے کر گئیں جہاں فیڈرل بورڈ کے لوگ بھی موجود تھے اور ہمارے کالج میں نیوی کے کچھ افسران بھی آئے ہوئے تھے۔'
طالبات کا کہنا ہے کہ ہم سے پوچھا گیا کہ بائیو کے پریکٹیکل کے دوران ٹیچر نے آپ میں سے کس کس کو ٹچ کیا تھا۔
'جن بچیوں نے کہا کہ ہمیں سعادت بشیر نے چھوا تھا انھیں مزید پوچھ کچھ کے لیے الگ کیا گیا۔ میں بھی ان لڑکیوں میں شامل تھی جنھیں ٹیچر نے ٹچ تو نہیں کیا تھا لیکن میں نے پریکٹیکل کے دوران انھیں اپنی ایک ساتھی طالبہ کو پریشان کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اور بعد میں اس نے ہمیں بتایا بھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا۔'
'کالج انتظامیہ نے ہمیں کہا کہ آپ نے جو کچھ بھی دیکھا اسے لکھ کر دیں تو ہم نے وہ سب صورتحال لکھ کر دے دی اور پھر ہم گھر آ گئے۔ ہم 21 میں سے سات سے آٹھ ایسی لڑکیاں تھیں جنھوں نے کہا کہ پریکٹیکل لینے والے ٹیچر نے انھیں ٹچ کیا تھا۔'
ایک طالبہ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بہت سی ایسی لڑکیاں ہیں جو ہراسگی کا نشانہ بننے کے باوجود اب انتظامیہ کے سامنے کہہ رہی ہیں کہ انھیں ٹچ نہیں کیا گیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ جنھوں نے ہمیں خاموش رہنے کو کہا تھا نے ہم سے 'معافی مانگی' ہے اور کہا ہے کہ وہ شرمندہ ہیں اس سب پر جو کچھ ہوا۔
ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہم سے بات چیت اور تحریری بیانات لے رہی ہیں اور اس سارے معاملے کو اب لگتا ہے کہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔
ایک طالبہ کی والدہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم اپنے بچوں کو سکول بھجواتے ہیں تو پھر یہ سکول کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے۔
اس بارے میں مزید پڑھیے
’اس سارے معاملے میں سکول کی جانب سے ذمہ داری ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے۔ یہ تو بچیاں ہیں استاد اور انتظامیہ کا کام تھا کہ وہ سٹینڈ لیتے۔ اب میری بیٹی جب پریکٹیکل دینے جائے گی تو میں اسے اکیلا نہیں جانے دوں گی۔ ہمارے بچے بہت دباؤ میں ہیں میں نے اپنی بچی کو اس معاملے پر بات کرنے سے روکا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے والدین خاموش ہیں۔۔۔'
وفاقی نظامات تعلیم کے زیر انتظام چلنے والے اداروں سے منسلک ایک پروفیسر نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’اس سارے معاملے میں انتظامی غلطی یہ تو دکھائی دے رہی ہے کہ ایک ایسے استاد کو دوبارہ طالبات کے کالج بھجوایا گیا جس پر جنسی ہراسگی کے الزامات پہلے بھی لگ چکے اور جس کا وہاں جانا ممنوع تھا لیکن اس سے بڑی غلطی یہ ہے کہ بورڈ پریکٹیکل کے دوران ریزیڈنٹ انسپیکٹر تعینات نہیں کرتا جو کہ دراصل سکول کا پرنسپل ہوتا ہے۔‘
’پرنسپل ہی صورتحال پر درست انداز میں نظر رکھ سکتا ہے اور اگر کچھ ہو رہا ہو تو اس پر فوری ایکشن لے سکتا ہے۔ لیکن یہ سامنے ہے چونکہ پرنسپل کو بھی قواعد کے مطابق ڈیوٹی کے لیے پیسے دینے پڑیں گے اور اس وجہ سے بورڈ یہ کوتاہی مسلسل بنیادوں پر کرتا چلا آرہا ہے۔'
No comments:
Post a Comment