ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/10/19/new-version-of-ramayan-%E2%80%93-delhi-univeristy-history-dept/
NEW VERSION OF RAMAYAN – DELHI UNIVERISTY HISTORY DEPT
NEW VERSION OF RAMAYAN – DELHI UNIVERISTY HISTORY DEPT
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/10/111019_ramayana_epic_essay_gel_sz.shtml
دلی یونیورسٹی میں رامائن پر نیا تنازع
دلی یونیورسٹی میں رامائن پر نیا تنازع
11:54 GMT 16:54 PST, 2011, آخری وقت اشاعت: بدھ 19 اکتوبر
دلی یونیورسٹی میں دانشوروں، اساتذہ اور طلباء کے درمیان اس بات پر بحث چھڑی گئي ہے کہ ہندو مذہب کی مقدس کتاب رامائن سے متعلق ایک متنازع
مضمون کو پڑھانا چاہیے یا نہیں۔
مضمون کو پڑھانا چاہیے یا نہیں۔
تنازع رامائن سے متعلق معروف بھارتی سکالر اے کے راما انوجن کے ایک مضمون سے متعلق ہے جسے تاریخ کے نصاب میں شامل کیا گيا تھا۔
لیکن سختگیر ہندو گروپوں کی طرف سے احتجاج کے بعد گزشتہ ہفتہ اس مذکورہ مضمون کو نصاب سے ہٹا لیا گيا ہے۔
لیکن سختگیر ہندو گروپوں کی طرف سے احتجاج کے بعد گزشتہ ہفتہ اس مذکورہ مضمون کو نصاب سے ہٹا لیا گيا ہے۔
اس مضمون میں راما انوجن نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ رامائن کی کہانی کو ایشاء کے مختلف علاقوں میں تقریباً تین سو الگ الگ طریقوں سے بیان کیا گيا ہے۔
لیکن اس کے خلاف احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس مضمون میں رامائن کے مختلف نسخوں کے متعلق جس طرح سے بیان کیا گیا اس سے ہندو عقیدے کی توہین ہوتی ہے۔
راما انوجن کے مضمون کا نام ہے ’تھری ہنڈریڈ رامائناز : (تین سو رامائنیں) فائیو اگزامپلز اینڈ تھری تھاٹس آن ٹرانسلیشنز‘ یعنی ترجمہ پر پانچ مثالیں اور تین طرح کے خیالات۔ اس مضمون کو دو ہزار چھ میں تاریخ کے نصاب میں شامل کیا گیا تھا۔
دو ہزار آٹھ میں تنازعے کے بعد سپریم کورٹ نے اس معاملے پر غور و فکر کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اور گزشتہ ہفتے کیمٹی کے چار میں سے تین ارکان نے اس مضمون کو تاریخ کے نصاب میں شامل رہنے دینے کی سفارش کی ہے۔
اس کے باوجود یونیورسٹی کی اکیڈمک کاؤنسل نے، جو نصاب پر فیصلہ کرتی ہے، اسے نصاب سے باہر رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
لیکن دلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کا کہنا ہے کہ وہ اس مضمون کو نصاب میں دوبارہ لانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت یونیورسٹی اصولی طور پر ’انٹیلیکچول فریڈم‘ یعنی فکری آزادی سے سمجھوتہ کر رہی ہے۔
لیکن دلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کا کہنا ہے کہ وہ اس مضمون کو نصاب میں دوبارہ لانا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی دباؤ کے تحت یونیورسٹی اصولی طور پر ’انٹیلیکچول فریڈم‘ یعنی فکری آزادی سے سمجھوتہ کر رہی ہے۔
ایک انگریزی اخبار میں تاریخ کے پروفیسر سنیل کمار کا بیان شائع ہوا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے ’ہمارے لیے یہ بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ ایک کورس جسے نصاب میں شامل کیا گیا تھا اور شعبہ تاریخ نے اس کی منظوری دی تھی اسے باہر کر دیا گيا۔‘
انہوں نے کہا ’ایڈمک کاؤنسل کو اپنے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے شعبہ نے ایک خط تیار کیا ہے اور کاؤنسل سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔‘
اس مذکورہ مضون پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس میں ان رامائنوں کا تذکرہ ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ لارڈ رام اور دیوی سیتا بھائی بہن تھے
اور دس سروں والا راجہ راون سیتا کا باپ تھا۔
جبکہ ہندو مذہب میں مقبول ترین رامائن، جسے والمیکی نے لکھا تھا، کے مطابق رام اور سیتا میاں بیوی تھے اور مثالی جوڑے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں راون سیتا کو اپنے لیے اغوا کرتا ہے اور پھر بعد میں رام اپنی بیوی کو رہا کرانے کے لیے راون سے جنگ لڑتے رہے ہیں۔
اور دس سروں والا راجہ راون سیتا کا باپ تھا۔
جبکہ ہندو مذہب میں مقبول ترین رامائن، جسے والمیکی نے لکھا تھا، کے مطابق رام اور سیتا میاں بیوی تھے اور مثالی جوڑے کی حیثیت حاصل ہے۔ اس میں راون سیتا کو اپنے لیے اغوا کرتا ہے اور پھر بعد میں رام اپنی بیوی کو رہا کرانے کے لیے راون سے جنگ لڑتے رہے ہیں۔
لیکن راما انوجن کے مضمون میں اسی رام اور سیتا کی کہانی پر بات کرتے ہوے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اس کتاب کے بہت سے نسخے ہیں اور ہر شخص نے اپنی اپنی فکر کے مطابق اسے مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment