Source: https://www.bbc.com/urdu/science-44397628
اسقاطِ حمل:’جہاں قوانین سخت وہاں گولیوں کی آن لائن تلاش میں اضافہ‘
بی بی سی کو گوگل سرچ کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں عالمی سطح پر اسقاط حمل کے لیے گولیوں کی آن لائن تلاش میں دوگنا اضافہ ہوا ہے۔
ان اعداد و شمار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جن ممالک میں اسقاط حمل سے متعلق قوانین زیادہ سخت ہیں وہیں اسقاط حمل کی گولیاں زیادہ آن لائن تلاش کی جاتی ہیں۔
ان گولیوں کی آن لائن خریدنے اور واٹس ایپ گروپس کے ذریعے طبی مشاورت کی سہولت کی وجہ سے خواتین بڑی تعداد میں اسقاط حمل پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لے رہی ہیں۔
یہ ’ڈی آئی وائے ابورشن‘ کا جدید چہرہ ہے۔
بی بی سی کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسوپروسٹول نامی گولی ان ممالک میں دس گنا زیادہ آن لائن سرچ کی جاتی ہے جہاں قوانین سخت ہیں اور صرف خواتین کی جان بچانے کے لیے ہی اسقاط حمل کی اجازت ہے یا اس پر مکمل پابندی ہے، بہ نسبت ان ممالک کے جہاں اس پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اسقاط حمل کے دو طریقے ہیں، آپریشن کے ذریعے یا ادویات کے ذریعے۔
ادویات کے ذریعے اسقاط حمل عام طور پر مسوپروسٹول اور مائفپروسٹون نامی دو گولیوں کے امتزاج سے کیا جاتا ہے۔ مسوپروسٹول نامی گولی سیٹوٹیک برینڈ کے نام سے بھی دستیاب ہوتی ہیں۔
تاہم برطانیہ جیسے ممالک میں ان گولیوں کو صرف ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد ہی حاصل کیا جا سکتا ہے، جبکہ خواتین ان ادویات کے بارے میں ان ممالک میں آن لائن سرچ کرتی ہیں یا انھیں خریدتی ہیں جہاں اسقاط حمل پر پابندی ہوتی ہے اور وہ اس طرح سے قوانین کی خلاف ورزی کر کے خود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
گوگل کے اعداد و شمار کے مطابق گھانا اور نائجیریا وہ دو ممالک ہیں جہاں سب سے زیادہ مسوپروسٹول کو آن لائن تلاش کیا جاتا ہے۔
گھانا اسقاط حمل کی صرف ریپ، جینی خرابی یا خاتون کی ذہنی صحت کو بچانے کی صورت میں ہی اجازت دیتا ہے۔
تاہم نائجیریا میں اس حوالے قوانین کافی سخت ہیں، وہاں اسقاط حمل کی صرف اسی صورت میں اجازت ہے اگر عورت کی جان خطرے میں ہو۔
جن 25 ممالک میں مسوپروسٹول سب سے زیادہ آن لائن سرچ کی جاتی ہے ان میں سے 11 افریقی ممالک ہیں جبکہ دیگر 14 لاطینی امریکی ملک ہیں۔
زیمبیا اور موزمبیق میں اسقاط حمل پر یا تو مکمل پابندی ہے یا پھر صرف اس صورت میں اجازت ہے اگر حاملہ خاتون کی جان یا صحت کو خطرہ ہو۔
آئرلینڈ میں اسقاط حمل کے لیے گولیوں کا استعمال کرنے پر 14 سال جیل کی سزا ہے، تاہم مئی میں ہونے والے ریفرینڈم میں ووٹرز نے اس قانون کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔
تاؤسیچ (وزیراعظم) لیو ورادکر کو امید ہے کہ اس سال کے آخر تک نئے قوانین لاگو ہو جائیں گے۔ بی بی سی نے حال میں برازیل میں کام کرنے والے اس واٹس ایپ گروپ کے بارے میں رپورٹ کیا جو خواتین کو ایسی گولیاں حاصل کرنے میں مدد کرتا ہے اور ساتھ میں طبی مشورے بھی فراہم کرتا ہے۔
جولیانہ جو کے ان کا فرضی نام ہے ان خواتین میں سے ایک ہیں جنھوں نے اس واٹس گروپ کی مدد حاصل کی۔
28 سالہ جولیانہ کا کہنا ہے کہ ’میں نے اس طریقہ کار کو تنہا گھر پر شروع کیا اور واٹس ایپ گروپ کو اس کے شروع کرنے کے وقت کے بارے میں آگاہ کیا۔‘
’مجھے جو چیز پسند آئی وہ یہ کہ کیسے اس گروپ میں دیگر خواتین ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں، معلومات کا تبادلہ کرتی ہیں اور اس بارے میں شکوک اور خطرات پر بات کرتی ہیں۔ اس سے مجھے بھی کافی قوت ملی۔‘
’یہ جان کر آپ کو ہمیشہ اچھا محسوس ہوتا ہے کہ آپ تنہا نہیں ہیں۔ یہ گروپ میرے لیے کافی اہم تھا، اس لحاظ سے کہ میں محفوظ محسوس کروں۔‘
گوگل کے اعداد و شمار کے تجزیے سے صرف یہ ہی نہیں معلوم ہوتا کہ کن ممالک میں سب سے زیادہ تلاش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کتنی بار اس موضوع کے بارے میں کیا لکھ کر تلاش کیا گیا۔
بی بی سی نے جن ممالک کے بارے میں جاننے کی کوشش کی ہے ان میں اسقاط حمل کے لیے سب سے زیادہ جو جملہ لکھ کر تلاش کی گئی وہ تھا ’ابورشن پلز‘۔
دو تہائی سے ممالک سے زائد میں سب سے عام سوال جو لکھ کر پوچھا گیا وہ تھا ’اسقاط حمل کیسے کیا جائے۔‘
اسقاط حمل کے بارے میں جو معلومات زیادہ سرچ کی گئی ان میں: ’مسوپروسٹول کیسے استعمال کی جائے، مسوپروسٹول کی قیمت، مسوپروسٹول کی خرید اور مسوپروسٹول کی تعداد‘ شامل ہیں۔
اسقاط حمل کی گولیوں کے ساتھ ساتھ خواتین سرچ انجن کے ذریعے خود اسقاط حمل کرنے کے متابادل طریقہ کار بھی تلاش کر رہی ہیں۔
ان طریقہ کار میں جڑی بوٹیاں جیسے کے اجوائن، دار چینی، وٹامن سی، ایسپرین اور ابورشن چائے، جیسی اشیا تلاش کے نتائج میں سامنے آئی ہیں۔
ان میں ممالک میں سے نصف میں اسقاط حمل کے لیے تلاش میں جو سب سے زیادہ لکھا گیا وہ تھا ’اسقاط حمل کے گھریلو طریقۂ کار کیا ہیں۔‘
ایک تحقیق میں سب صحارا افریقہ میں اسقاط حمل کے لیے چائے کے استعمال کے بارے میں جاننے کی کوشش کی گئی، جس سے معلوم ہوا کہ بعض پودے رحم پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس علاقائی طریقہ کار کے نقصانات بھی ہیں۔
حفاظتی معلومات کے ساتھ ساتھ تحقیق میں یہ بھی پتا چلا کہ اس عمل کو سرانجام دینے والوں کے لیے اس کی خوراک پر قابو رکھنا مشکل ہوتا ہے اور اس کے نقصانات بھی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے اوپر بیان کیے جانے والے ’گھریلوں طریقہ کاروں‘ میں سے کسی کو بھی محفوظ نہیں قرار دیا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 25 ملین غیر محفوظ اسقاط حمل ہوتے ہیں۔
ان 25 ملین اسقاط حمل کو مزید لیٹیگریوں میں ڈالا گیا ہے۔
مسوپروسٹول کو عام طور پر اس صورت میں اسقاط حمل کا محفوظ طریقہ کار قرار دیا گیا اگر اسے کسی طبی ماہر کی نگرانی میں استعمال کیا جائے، لیکن اگر اسے غیر تربیت یافتہ شخص استعمال کرے تو اس کے شدید خطرات بھی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اگر اسے غیر تربیت یافتہ شخص کی نگرانی میں استعمال کیا جائے تو یہ ’کم محفوظ‘ ہوتی ہے۔
میری سٹوپس انٹرنیشنل میں عالمی میڈیکل ڈائریکٹر دھمیکا پریرا کا کہنا ہے کہ ’اگر اس دوا کی کوالٹی ٹھیک ہے اور اسے صحیح طریقے سے استعمال بھی کیا جائے تو بھی نقصان کا ڈر ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جب خواتین اسے آن لائن خریدتی ہیں یا انھیں کسی غیر تربیت یافتہ شخص کی جانب سے مہیا کی جاتی ہیں تو اس سے ناکام اسقاط حمل کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔‘
اگر کچھ غلط ہو جاتا ہے تو بہت کم ایسی خواتین اسقاط حمل کے بعد کسی طبی امداد کے لیے جاتی ہیں۔
دھمیکا پریرا کا کہنا ہے کہ ’بدنامی، خرچ، علاقائی رسائی وہ چیزیں جن کی وجہ سے خواتین ہچکچاتی ہیں اور اس طرح وہ خود کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔‘
’عالمی سطح پر کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، جیسے کہ امریکہ میں، لیکن میں اب بھی پرامید ہوں۔‘
حال ہی میں بی بی سی کو آرزو کے بارے میں معلوم ہوا، جو قانون کی طالب علم ہیں اور ایران میں رہتی ہیں۔ وہ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ تھیں جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ حاملہ ہیں، وہ دونوں پانچ سال سے ایک ساتھ ہیں اور ماضی میں مانع حمل ادویات استمعال کرتے رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا: ’میں نے جو بھی گائناکالوجسٹ کا کلینک دیکھا میں وہاں چلی گئی۔‘
’جب ڈاکٹروں نے میرا چیک اپ کیا اور انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شادی شدہ نہیں ہوں لیکن مجھے اسقاط حمل کروانا ہے تو وہ مجھے اسی وقت انکار کر دیتے۔‘
پھر انھوں نے جعلی کاغذات بنوائے جس پر لکھا تھا کہ ان کی طلاق ہو چکی ہے، اس طرح انھوں نے ایک ڈاکٹر کو مدد کے لیے قائل کر لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈاکٹر نے مجھ سے آٹھ گولیوں کے لیے بہت زیادہ پیسے بھی لیے لیکن ان ادویات کا کوئی اثر بھی نہیں ہوا۔‘
آرزو نے اس کے بعد انٹرنیٹ کا رخ کیا اور وہاں انھیں ایک ایسا امدادی ادارہ ملا جو ان ممالک میں خواتین کو اسقاط حمل کی گولیاں بھیجتا ہے جہاں اس پابندی ہے۔ وہیں سے انھیں مدد اور ہدایات ملیں۔
آخرکار جو گولیاں انھوں نے ڈاکٹر سے لی تھیں اس نے کام تو کیا لیکن اسقاط حمل مکمل نہ ہوا۔ ایک ہفتے بعد آرزو اپنی بہن کے ہمراہ نجی ہسپتال گئیں۔
’میں جھوٹ بولا، میں نے ان سے کہا کہ میرے شوہر فرانس میں ہیں اور میرے کاغذات سیف میں کہیں پڑے ہیں، اور مجھے محفوظ اسقاط حمل کروانا ہے۔‘
ہسپتال والے ایسا کرنے پر رضامند نہیں تھے اور نہ ہی انھیں ہسپتال میں داخل کرنا چاہتے تھے۔
آرزو کے مطابق یہ ایک مجعزہ ہی تھا کہ آخرکار انھوں نے ان کا یقین کر لیا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جھوٹ بولنے اور کہانیاں بنانے کے بعد مجھے آخرکار داخل کر لیا گیا اور 30 منٹ بعد سکشن کا عمل مکمل ہو گیا۔ یہ میری زندگی کا سب سے برا لمحہ تھا۔‘
تمام اسقاط حمل میں سے تقریباً 14 فیصد ’کم محفوظ‘ ہوتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انھیں غیر تربیت یافتہ افراد سے خطرناک طریقہ کار کے تحت کروایا جاتا ہے۔
انفیکشن اور نامکمل اسقاط حمل جیسی پیچیدگیاں ایسے طریقہ کاروں کی وجہ سے اپھرتی ہیں۔
جب کوئی اسقاط حمل نامکمل ہوتا ہے تو طبی ماہرین یا تو مزید ادویات کا مشورہ دیتے ہیں یا پھر آپریشن کا کہتے ہیں، اس کا انحصار صورتحال پر ہوتا ہے۔
گٹمیچر انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق کم از کم 22800 خواتین ہر سال غیرمحفوظ اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مر جاتی ہیں۔
تمام سرچ ڈیٹا جس کا استعمال کیا گیا ہے وہ گذشتہ پانچ سالوں کا ہے اور گوگل ٹرینڈز سے حاصل کیا گیا ہے، جو سرچ کی صحیح تعداد مہیا نہیں کرتا، لیکن 0-100 کے درمیان کسی موضوع پر سرچ کے بارے میں بتاتا ہے، کسی بھی موضوع، وقت اور علاقے کے حوالے سے سرچ کے نتائج میں 100 بلند ترین ہے۔ مختلف زبانوں یا ادویات کے مختلف ناموں سے سرچ (مثال کے طور پر۔ ’ابورشن پلز‘، ’مسوپروسٹول‘ یا ’سیٹوٹیک‘) اس ڈیٹا میں شامل ہیں۔
مجموعی ٹرینڈز کے لیے ہم نے عالمی سرچ ڈیٹا کا جائزہ لیا، اور 14 ممالک کو تفصیل سے دیکھا: گھانا، نائجیریا، ہونڈروس، بولیویا، ایکواڈور، نکراگوا، کینیا، میکسیکو، امریکہ، کولمبیا، برازیل، ارجنٹینا، انڈیا اور آئرلینڈ۔ ہر ملک میں اسقاط حمل کے قوانین کا ڈیٹا سینٹر فار ریپروڈکٹیو رائٹس سے حاصل کیا گیا۔
No comments:
Post a Comment