Saturday, 16 June 2018

RADICAL ALLIANCE OF AFGHAN & PAKISTAN – WORLDWIDE CONCERN Posted on September 29, 2011


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/29/radical-alliance-of-afghan-pakistan-%E2%80%93-worldwide-concern/


RADICAL ALLIANCE OF AFGHAN & PAKISTAN – WORLDWIDE CONCERN

RADICAL ALLIANCE OF AFGHAN & PAKISTAN – WORLDWIDE CONCERN
(Sep 29, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2011/09/110929_militancy_analysis_aak_zs.shtml
13:35 GMT 18:35 PST 2011, آخری وقت اشاعت: جمعرات 29 ستمبر
شدت پسندوں سے اتحاد کی پالیسی پر عالمی پیمانۂ صبر لبریز
عامر احمد خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
حقانی نیٹ ورک پاکستان اور امریکہ کے درمیان گرم سرد تعلقات کے مابین ایک ایسی وجہ نزع بن گیا ہے جس سے یہ تعاون ٹکراؤ کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔
40 years of Radicalism in Pakistan – Time line
شدت پسندوں سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مبینہ روابطہ پر عالمی برادری کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے قریب ہے تو دوسری طرف پاکستان نے بڑھتے ہوئے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے معاندانہ رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ کچھ دنوں کے دوران پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کے لیے امریکہ کا جو دباؤ دیکھنے میں آیا ہے وہ کبھی پہلے دیکھنے میں نہیں آیا اور امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ نیٹ ورک افغانستان میں موجود مغربی افواج کے کیے واحد بڑا خطرہ ہے۔
پاکستان کا ردِ عمل بے یقینی اور ناراضی پر مبنی ہے اور اس نے امریکہ سے پاکستانی سرزمین پر نیٹ ورک کی موجودگی کا ثبوت طلب کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر مغرب نے پاکستان پر شدت پسندوں کی مدد کے الزامات جاری رکھے تو اس کے لیے ایک اہم اتحادی سے محروم ہونے کا خطرہ بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
گرچہ دونوں اتحادیوں کے درمیان یہ تازہ ترین چپقلش کچھ نئی نہیں ہے لیکن اس بار امریکہ جس عدم تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ کبھی پہلے دیکھنے میں نہیں آیا۔ اور بظاہر تو یہ دباؤ صرف حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے ہے لیکن اس بات کا بھی عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے اپنی خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے شدت پسند گروپوں اور نجی ملیشیاؤں سے اتحاد کی جس پالیسی پر عمل پیرا ہے اس کے لیے عالمی پیمانۂ صبر تیزی سے لبریز ہوتا جا رہا ہے۔
امریکہ کے سرکردہ کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے ریٹائرمنٹ سے قبل کانگریس میں اپنی حاضری کے دوران کہا کہ ’حقانی نیٹ ورک کے بارے میں ایک بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستان کی انٹیلیجنس کے بازو طور پر کام کرتا ہے‘۔
پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پر شدت پسند گروپوں اور شدت پسندی کے ذریعے خارجہ پالیسی کے مقاصد کے حصول کا الزام کوئی پہلی بار نہیں لگا ہے۔ ہمسایہ ملک انڈیا، چین، ایران اور افغانستان سمیت سارے دوست و دشمن برسوں سے پاکستان کے خلاف اس سے ملتے جُلتے الزام لگاتے رہے ہیں۔
پاکستان میں شدت پسندی کے منظر کا ایک طائرانہ جائزہ معاملے کو سمجھنے میں خاصا مددگار ہوگا۔
RADICALIZATION ON RISE
بی بی سی اردو کی ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ چالیس برسوں کے دوران پاکستان میں پچیس سے زیادہ بڑے شدت پسند گروپ پیدا ہوئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک ظہور اس کے انتہائی واضح ایجنڈے کے ساتھ ہوا ہے اور اتفاق سے یہ ایجنڈے اس وقت کی خارجہ پالیسی کے مقاصد سے خاصے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔
نجی ملیشیاؤں کی ترویج یا فوجی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے ریڈیکل گروپوں کی مدد کا طریقۂ کار ماضی میں کشمیر پر پاکستان کے انڈیا سے تنازعے کی ابتداء تک جاتا ہے۔ بہرطور لگتا یہ ہے کہ یہ پالیسی نظریاتی طور پر بتدریج سیکولر اور قوم پرستانہ بنیادوں سے سرک کر خالصتاً اسلامی بنیادوں پر جا ٹکی ہے۔
کشمیر میں انڈین ایڈمنسٹریشن کی مزاحمت کے لیے 1965 سے 1971 تک پاکستان کی مدد جن شدت پسند تنظیموں کو حاصل تھی وہ سکیولر اور قوم پرستانہ سوچ رکھتی تھیں۔ لیکن 1971 میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کی جنگ کے ساتھ ہی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا رخ ایسے مذہبی گروپوں کی طرف ہو گیا جو نان سٹیٹ ایکٹرز کے طور پر اس کی جنگ لڑ سکیں۔
الشمش اور البدر اسی سلسلے کی وہ پہلی تنظیمیں تھیں جن پر بنگلہ دیش اب تک علیحدگی کے حامی دانشوروں کے قتل کا الزام لگاتا ہے۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد ان تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 1979 میں سوویت مخالف افغان جنگ کے دوران البدر پھر سے بحال ہو گئی اور اس کا ایک اور جنم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس وقت ہوا جب وہاں 1989 میں ہندوستان مخالف احتجاج پھٹ پڑا۔
AFGHAN LINK
لیکن لگتا یوں ہے کہ افغانستان میں ان شدت پسند گروپوں کی کامیابیوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو اس بات کا زیادہ احساس دلایا کہ ان کے ہاتھ واقعی فتح مندی کا ایک نسخہ آ گیا ہے۔
اس کے بعد 1980 کی دہائی میں کم و بیش سات ایسی نئی تنظیمیں سامنے آئیں جن کی زیادہ تر کارروائیوں کے مرکز کشمیر اور افغانستان تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک تنظیم انجمنِ سپاہِ صحابہ بظاہر 1979 کے اُس ایرانی انقلاب کے ردِ عمل کے طور پر سامنے آئی تھی جس نے کچھ لوگوں میں یہ خوف بھی پیدا کر دیا تھا کہ یہ انقلاب پاکستان کی خاصی بڑی شیعہ آبادی کو ایران سے ملتے جُلتے انقلاب پر اکسا سکتا ہے۔
شیعہ رہنماؤں کو نشانہ بنانے کا عزم رکھنے والی یہ تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے جنوبی پنجاب کے شہر جھنگ سے نکل کر پاکستان کے بیشتر حصوں میں پھیل گئی۔
افغانستان سے 1989 میں واپسی اور پھر سوویت یونین کے خاتمے نے ان تنظیموں کو مزید مہمیز دی۔
اس کے بعد 1990 کی دہائی میں چھ مزید ایسی تنظیمیں سامنے آئیں جنہوں نے کشمیر کے احتجاج کو پُرتشدد بغاوت بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں اس دہائی کے دوران ہزارہا شہری ہلاکتیں ہوئیں۔
بہر طور اسی عرصے کے دوران مختلف افغان گروہ جو عرب اور وسط ایشیائی شدت پسندوں کے میزبان تھے افغانستان سے سوویت واپسی کے نتیجے میں بے روزگار ہو گئے اور مزید یہ کہ افغان جنگ نے اندرونی گروہی جنگ کی شکل اختیار کر لی۔
LOOKING AT PESHAWAR
پاکستان کے شہر پشاور میں جمع ان تمام لوگوں کی تمام نئی امیدیں اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے نیٹ ورک سے وابستہ تھیں جو نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو نشانہ بنا چکا تھا اور افغانستان میں اپنے مرکز کو مضبوط کرنے میں لگاتھا۔
پاکستان کی پشت پناہی رکھنے والے طالبان 1990 کے وسط تک افغانستان کے بڑے حصے پر قبضہ کر چکے تھے اور پاکستانی شدت پسند تنظیمیں افغانستان کے اندر مختلف علاقوں کو تربیتی مراکز کے طور پر استعمال کر رہی تھیں اور یہ سہولت ایسی تھی جو القاعدہ سے ان کے رابطے کو بھی یقینی بناتی تھی۔
افغان جنگ کے ختم ہونے اور تنازعِ کشمیر عالمی ایجنڈے پر نہ آنے کے باعث پاکستانی شدت پسند تنظیمیں بھی فوکس اور واضح مقصد نہ ہونے کے نتیجے میں شکست و ریخت کا شکار ہونے لگیں۔
اکثر پاکستانی تجزیہ کار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت ان گروپوں پر کمزور پڑ گئی جنہوں نے خود اپنے طور پر ہزارہا لوگوں کو جمع کیا ان کی تربیت کی اور انہیں کٹّر جنگجو بنا دیا۔
ان تنظیموں کے بارے میں پاکستان نے اس خیر سگالی کا مظاہرہ ضرور کیا کہ ان کی قیادت اور لوگوں کا بڑا حصہ کھلے بندوں جلسے جلوسوں سمیت تمام کام کرتا تھا اور اپنے مقاصد کے لیے عطیات اور چندے بھی جمع کرتا تھا۔
اس بات کے کئی انتباہی اشارے بھی سامنے آئے کہ ان میں سے کئی گروپ بے قابو ہوتے گئے، مثلاً یہ کہ فرقہ ورانہ تشدد میں خاصا اضافہ ہوا، مقامی مساجد اور مدرسوں کے کنٹرول پر جھگڑے ہونے لگے اور امریکہ پر برسرِعام تنقید میں اضافہ ہوا لیکن ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اس بات کو تسلیم کرنے سے ہمیشہ انکار کرتی رہی کہ اس کے غیر ریاستی یا نان سٹیٹ اتحادی ایک ایسی سوچ کی طرف بڑھ رہے ہیں جو اس ایجنڈے سے ماورا ہے جس کے لیے انہیں پیدا کیا گیا تھا۔
اس رویے کی ایک بڑی مثال یہ کہ جب دسمبر 2000 میں ایک مغوی طیارے کے بدلے بھارت نے تین جانے پہچانے شدت پسندوں کو رہا کیا تو ان تینوں کو نہ صرف پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی بلکہ ان تینوں نے اپنے ایسے گروپ بھی بنائے جن کا عزم اور مقصد بھارت کے خلاف شدت پسند کارروائیاں کرنا تھا۔
ان گروپوں کو جس طرح کی آزادی حاصل رہی اس کا اظہار ان کی طاقت، پھیلاؤ اور سوچ کی اس بین الاقوامیت سے ہوتا ہے جو نائن الیون کے بعد سامنے آئی اور جس کے نتیجے میں کم و بیش درجن بھر ایسے نئےگروہ پیدا ہو گئے جن کے ایجنڈے اور مقاصد نائن الیون کے بعد پاکستان اور امریکہ کے اتحاد سے براہِ راست متصادم تھے۔
ان نئے گروپوں میں سے اکثر القاعدہ کی اس سوچ کے شریک تھے کہ جہاں کہیں بھی ممکن ہو، جس طریقے سے بھی ممکن ہو، براہِ راست یا بالراست، خود یا اتحادیوں کے ذریعے مغرب کو تکلیف پہنچائی جائے۔ زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اکثرگروپ جنگجو افرادی قوت اُنہی شدت پسند گروپوں سے حاصل کرتے تھے جو پاکستان کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے سابق اتحادی تھے۔
جیسے ہی وار آن ٹیرر یا دہشت گردی کے خلاف جنگ نے پاکستان میں گرم ہونا شروع کیا، کراچی میں فرانسیسی انجینئروں پر بمباری اور وال سٹریٹ جنرل کے صحافی ڈینئل پرل کے قتل کے واقعات ہو گئے جو دوسرے بہت سے واقعات کے لیے سنگِ میل تھے۔ انہیں واقعات کے بعد پاکستان میں ان گروپوں کی کارروائیوں کے بارے میں بین الاقوامی توجہ میں شدت آئی اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو بھی کارروائی کی ضرورت کا خیال آیا۔
مشرف حکومت کے دور میں 11/9 کے بعد کیے جانے والے ایک پالیسی جائزے میں ‘شدت پسندی کے خاتمے میں مدد’ کے عنوان سے ایک بڑا منصوبہ بنایا گیا اور یہ تجویز کیا گیا کہ کچھ گروپوں کو تو ختم کرنے کی ضرورت ہے لیکن دوسروں کی خوصلہ افزائی کی جائے تا کہ وہ معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل ہو سکیں۔
GOOD AND BAD TERRORIST
بہرطور اس بار ’اچھے‘ اور ’برے‘ شدت پسند میں کوئی قابلِ اعتبار امتیاز قائم کرنا کم و بیش ناممکن تھا۔
افغانستان میں مسلسل لاقانونیت، القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ، تربیت یافتہ شدت پسندوں کی مختلف گروپوں میں آمد و رفت اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ایسے گروپوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام سے گریز جو بنیادی طور پر ہندوستان کے خلاف سرگرم تھے۔ سابق انٹیلیجنس حکام کے مطابق اس وقت یہ بتانا ناممکن ہو گیا تھا کہ کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے۔
حقانی نیٹ ورک کے بارے میں پاکستان کا موجودہ رویہ اس بنیادی مزاحمت کا عندیہ دیتا ہے جو کسی بھی ایسی تجویز کے بارے میں اسٹیبلشمنٹ میں پائی جاتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ خارجہ پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے غیر ریاستی یا نان سٹیٹ ایکٹرز کو استعمال نہ کر سکیں۔
ہو سکتا ہے کہ اس وقت فوری دباؤ حقانی نیٹ ورک پر ہو لیکن اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا بتدریج پاکستان کے اس انحصار کے بارے میں چوکس ہوتی جا رہی ہے جو وہ نان سٹیٹ ایکٹرز پر کرتا ہے۔
ہو سکتا ہے کہ پاکستان کے مستقبل اور آنے والے برسوں میں باقی دنیا سے پاکستان کے تعلقات کا تعین حقانی نیٹ ورک کے مستقبل کی بنیادوں پر نہ ہو لیکن اُس پالیسی کا مستقبل ضرور انتہائی اہم ہے جس نے چالیس سال تک دنیا کو ہلا دینے والی شدت پسند تنظیموں کی تخلیق کی اور مغرب کے فرنٹ لائن اتحادی ملک سے فروغ میں مدد بھی دلائی۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment