Saturday, 16 June 2018

ROLE OF MEDIA AFTER 9/11(sep 12, 2011)


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/12/role-of-media-after-911/

ROLE OF MEDIA AFTER 9/11(sep 12, 2011)

http://www.bbc.co.uk/urdu/columns/2011/09/110912_911_role_media_ar.shtml
07:37 GMT 12:37 PST 2011, آخری وقت اشاعت: پير 12 ستمبر
نائن الیون کے بعد میڈیا کا کردار
عنبر شمسی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
نائن الیون کے حملوں کے بعد، دہشت گردی کے خلاف جنگ تو شروع ہوئی، لیکن اس کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں بھی ایک قسم کی جنگ کا آغاز ہوا۔
نائن الیون کے حملوں کے بعد، اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔
لیکن یہ جنگ صرف عسکری نہیں تھی، یہ ذرائع ابلاغ کے میدان پر بھی لڑی گئی۔ اس جنگ کو بعض مبصرین پروپیگنڈا کی 
جنگ بھی کہتے ہیں اور بعض ’وار آف نیرٹیوز‘ بھی۔
خارجہ امور پر نظر رکھنے والے وجاہت علی کہتے ہیں ’اس وقت عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں بہت منفی نظریہ موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکی حکومت کا پاکستان کی بابت اپنے میڈیا کی سوچ پر پہرہ ہے اور نائن الیون کے 
بعد، ایک وار آف نیرٹوز یعنی پروپیگنڈے کی جنگ چل رہی ہے۔‘
نائن الیون کے کچھ ہی عرصے بعد، پاکستان میں یہ نظریہ عام ہو گیا کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے پاکستان کے بارے میں ایک منفی تاثر کو فروغ دیا ہے۔ تاہم انگریزی اخبار ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایسے بھی لوگ ہیں جن 
کے خیال میں یہ منفی پروپیگنڈا کچھ حد تک حقائق پر مبنی ہے۔
’ان لوگوں کے مطابق، پاکستان کے بارے میں مغربی میڈیا میں اکثر اوقات جو خبریں آتی ہیں، جس میں پاکستانی سکیورٹی 
اداروں اور پاکستان میں رہنے والی جہادی تنظیموں پر تنقید کی جاتی ہے، اس میں خاصی حقیقت بھی ہے۔‘
نائن الیون کے فوراً بعد تو دنیا کی توجہ سعودی عرب اور افغانستان پر رہی، لیکن جب پاکستان نے وار آن ٹیرر میں اپنا حصہ ڈال دیا، تو مغربی ذرائع ابلاغ کی توجہ پاکستان پر مرکوز ہوئی اور جب اس میڈیا نے اپنی چھریاں پاکستان پر تیز کیں تو وہ 
راز بھی افشاء ہونے لگے جو اب تک پنہاں تھے۔
ظفر عباس کہتے ہیں ’بہت ساری چیزیں ایسی تھیں جو پاکستان میں اکثر لوگوں کو معلوم تھیں وہ اب دنیا کے سامنے عیاں ہوں گئی ہیں۔ یہاں میں ان مذہبی تنظیموں کے بارے میں بات کر رہا ہوں جن کو تربیت دے کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ تو راز کھلنے کی بات کافی حد تک صحیح ہے۔ اس کو مختلف لوگ، مختلف طریقوں سے استعمال کرتے رہے ہیں۔ کچھ تو حقیقت ہے، اور کافی حد تک افسانہ بھی ہے۔‘
اگرچہ مغربی ذرائع ابلاغ میں پاکستان کے خلاف افسانے شائع اور نشر ہوتے ہیں، تاہم امریکی اور برطانوی میڈیا میں کچھ 
فرق ہے۔ برطانوی صحافی ڈکلن والش کے مطابق، اس کی بڑی وجہ امریکی حکومت ہے۔
’اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے، کہ امریکی حکومت کا پاکستان کے معاملات میں بڑا کردار ہے۔ جو کہ برطانوی حکومت کا 
نہیں ہے۔ تو امریکی میڈیا کی رپورٹنگ میں امریکی اہلکاروں سے سنی سنائی باتوں کا بہت حد تک اثر رہتا ہے۔‘
لیکن کیا پاکستانی میڈیا اس پروپیگنڈا کا مقابلہ کر پایا ہے؟ یاد رہے کہ اتفاق سے نائن الیون کے واقعہ کے ایک سال بعد ہی پاکستانی ٹیلی وژن میں ایک طرح کا انقلاب آیا جب نجی چینلوں کو خبریں نشر کرنے کی اجازت دی گئی۔
جیسے جیسے پاکستانی سماج پر شدت پسندی اور دہشت گردی کی تباہ کاریاں بڑھتی گئیں، بعض مبصرین کے خیال میں اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کا مثبت کردار نہیں رہا۔ اور چند گنے چنے صحافیوں کے علاوہ زیادہ تر پروپیگنڈا کی جنگ میں 
شامل ہو گئے ہیں۔
ظفر عباس کہتے ہیں’ایسے لوگ بھی ہیں جو بغیر تحقیق کیے، کاؤنٹر پروپگینڈے میں پڑ جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہیں کہ امریکہ میں ہمارے خلاف جو چھپا ہے اس کا جواب دینا بہت ضروری ہے اور اس کو قومیت کا روپ دیتے ہیں۔ وہ پاکستان کے مفاد کو نہیں دیکھتے ۔جب تک پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ان دونوں چیزوں کو بیلینس نہیں کیا جائے گا، کہ امریکی پالیسی اور پاکستان میں شدت پسندی تنظیموں کی حرکات کی وجہ سے قوم کو کتنا نقصان پہنچا ہے، تب تک صورتِ حال غیر واضح رہے گی۔ لوگوں کو یہ نہیں سمجھ آئے گا کہ ملک کس ڈگر پر جا رہا ہے۔‘
تاہم، برطانوی صحافی ڈکلن والش کا کہنا ہے کہ وہ ایسی جنگ کو نہیں مانتے۔
’میں کلیش آف سویلائزیشنز یعنی تہذیبیوں کے ٹکراؤ اور وار آف نیرٹوز یعنی پروپیگنڈا کی جنگ جیسے نظریات میں یقین نہیں رکھتا۔ لیکن میں نے گزشتہ دس برسوں میں ایک بات دیکھی ہے، کہ مغربی اور مسلمان دنیا کے درمیان بڑھتے ہوئے روابط کے باوجود دونوں میں باہمی سمجھوتے کا افسوس ناک حد تک کا فقدان ہے۔ نہ مغرب اور نہ ہی مسلم دنیا دونوں ہی ایک دوسرے کی سیاست و ثقافت کو سمجھنا چاہتی ہے۔‘

جنگ چاہے پروپیگنڈا کی ہو یا سچ اور جھوٹ کی، اس میں ہارنے والے مغربی اور مسلم دنیا کے عام شہری ہیں۔
Advertisements
Report this ad

No comments:

Post a Comment