Wednesday 13 June 2018

CHINESE IS LANGUAGE OF FRIEND – PAKISTANI SHOULD LEARN Posted on September 8, 2011


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/08/chinese-is-language-of-friend-%E2%80%93-pakistani-should-learn/

CHINESE IS LANGUAGE OF FRIEND – PAKISTANI SHOULD LEARN

CHINESE IS LANGUAGE OF FRIEND – PAKISTANI SHOULD LEARN
(sep 9, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/09/110907_sindh_chinese_wusat_zz.shtml
01:29 GMT 06:29 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعرات 8 ستمبر
زبانِ یارِ من چینی
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
حکومتِ سندھ نے سن دو ہزار تیرہ سے چٹھی جماعت کے بچوں کے لیے چینی زبان پڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
صوبائی وزیرِ تعلیم پیر مظہر الحق نے اس فیصلے کے حق میں یہ دلیل دی ہے کہ چین ایک عالمی معاشی طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے لہٰذا چینی زبان سیکھنے سے پاکستان اور باقی دنیا کوفائدہ ہوگا۔
پیر مظہر الحق کو یہ اچھوتا آئڈیا غالباً کراچی کے کاروباری مرکز صدر میں چینی ماہرِ دنداں ایل چاؤ ( بی ڈی ایس ) کے ہاں عقل ڈاڑھ نکلوانے کے دوران یا پھر کلفٹن کے کسی چائنیز ریسٹورنٹ میں ٹوم یونگ سوپ کی بھاپ لیتے ہوئے، چکن مانچورین یا وانگ ٹینگ تناول کرتے ہوئے یا پھر بیجنگ ڈک کا آرڈر کرتے ہوئے سوجھاہے۔ہو سکتا ہے کہ وہ پیر صاحب ماہوار چین یاترا کے شوقین اپنے قائد آصف علی زرداری کو مزید خوش کرنا چاہ رہے ہوں۔
CHIENSE LEARNING IS ESSENTIAL IN SCHOOL EDUCATION OF SINDH
یک حدیث ہے کہ علم حاصل کرو چاہے چین جانا پڑے۔ہوسکتا ہے کہ پیر صاحب نے اس کی تشریح یہ سمجھی ہو کہ علم حاصل کرنا ہے تو پہلے گھر بیٹھے چینی سیکھو۔
سر سلطان محمد خان آغا خاں سوئم نے فروری انیس سو اکیاون میں موتمر عالمِ اسلامی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تجویز پیش کی تھی کہ اردو کے بجائے عربی پاکستان کی قومی زبان ہونی چاہیے کیونکہ اردو مسلمانوں کے دورِ زوال اور عربی دورِ عروج کا استعارہ ہے۔ہو سکتا ہے پیر مظہر الحق نے بھی چینی زبان متعارف کرانے کا تصور اس جذبے سے پیش کیا ہو کہ
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
ویسے برصغیر کی لسانی تاریخ بہت ستم ظریف ہے ۔یہاں مقامی زبانوں کو ہمیشہ گھر کی مرغی دال برابر سمجھا جاتا رہا۔جو بھی حکمران باہر سے آیا وہ اپنا گھوڑا، تلوار، پکوان اور زبان ساتھ لایا اور مقامیوں سے بیعت لیتے ہوئے پکوان اور زبان انہیں تھما دی اور اسپ و شمشیر اپنے پاس رکھ لیے۔
آریاؤں کی سنسکرت ہو کہ امویوں کی عربی، تغلقوں کی ترک ہو کہ مغلوں کی فارسی یا پھر گوروں کی انگریزی، سب کی سب پہلے تو مقامی اشرافیہ نے خوف و خوشامد میں سیکھیں اور پھر ان بدیسی زبانوں کو اپنے طبقاتی تحفظ و احساس برتری کے لیے ایسے اپنا لیا کہ ناخن و گوشت کا رشتہ ہوگیا۔مگر یہ احساسِ برتری حاصل کرنے کے لئے خود کو اور خود کی زبان کو کمتر سمجھنے کی بھاری قیمت دینا پڑی اور آج تک دی جا رہی ہے۔
زبان یا تو ضرورت سکھاتی ہے یا پھر شوق۔مگر مشکل یہ ہے کہ زبان صرف زبان نہیں ہوتی وہ قومی شناخت اور انا کا استعارہ بھی ہوتی ہے۔ ایسا نا ہوتا تو جاپان اپنی معاشی ترقی کی بنیاد انگریزی پر رکھتا۔چینی اشرافیہ فرانسیسی اور جاپانی زبان اپنا لیتی۔عربوں کی زبان یمن سے مراکش تک نو آبادیاتی انگریزی، فرانسیسی یا سپینش ہوتی۔ایران عربی بول رہا ہوتا، انڈونیشیا کی قومی زبان ڈچ ہوتی اور پولش، چیک، ہنگیرین اور آدھے جرمن روسی اپنانے میں فخر محسوس کرتے۔ مگر ایسا نہیں ہو سکا۔ بھلے ان میں سے کسی نے کم ترقی کی یا زیادہ لیکن زبان کی اہمیت پر سمجھوتا نہیں کیا۔ نا اشرافیہ نے اور نا ہی عوام نے۔
غالباً پیر صاحب کی نگاہ سے وہ مسودہِ قانون نہیں گذرا جو موجودہ پارلیمنٹ کے مختلف الجماعت بائیس ارکان نے مشترکہ طور پر تیار کیا تھا۔ یہ تو نہیں معلوم کہ یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوا یا نہیں البتہ اس کے مندرجات قابلِ غور ہیں۔
اس بل میں آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون میں ترمیم تجویز کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ بلوچی، پنجابی، پشتو، شنا، بلتی، سندھی، سرائیکی اور اردو کو قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔سرکاری زبان تب تک انگریزی رکھی جائے جب تک قومی زبانیں ترقی کے مطلوبہ درجے تک نہیں پہنچ جاتیں۔
وفاقی حکومت قومی زبانوں کے فروغ و ترویج کے لیے ایک فنڈ قائم کرے۔سکول کی سطح پر عربی کو بطور مذہبی زبان لازمی قرار دیا جائے اور فارسی کو ایک اضافی مضمون کے طور پر متعارف کرایا جائے۔صوبوں کو اختیار دیا جائے کہ وہ تسلیم شدہ قومی زبانوں کے علاوہ کسی دیگر زبان کو بھی نصاب میں رائج کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔
ہو سکتا ہے مذکورہ لسانی بل کا یہ مسودہ خامیوں سے پاک نا ہو اور قابلِ بحث ہو لیکن اس کے اندر کارفرما جذبہ قابلِ توجہ ہے۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ پیر صاحب کی نیت یا جذبہ قابلِ قدر نہیں۔پاکستان میں ویسے بھی آج کل ہر کوئی زبانِ یارِ من چینی و من چینی نمی دانم کے مرحلے سے گذر رہا ہے۔
بلوچ کو اسلام آباد کی اور اسلام آباد کو بلوچ کی زبان چینی محسوس ہوتی ہے۔ پٹھان مہاجر کو اور مہاجر پٹھان اور سندھی کو چینی سمجھ رہے ہیں اور یہ سب پنجابی کے بارے میں یہی رائے رکھتے ہیں۔ایسے ماحول میں اگر سکہ بند چینی زبان کی باقاعدہ تعلیم شروع کردی جائے تو بالکل مضائقہ نہیں۔ جہاں بچہ پہلے سے رائج سندھی، اردو ، عربی اور انگریزی ٹھیک طریقے سے نہیں پڑھ پا رہا وہاں چینی زبان کا بھی یہی حشر ہو جاوے تو کیا حرج ہے۔
آخر ہم چکن چاؤمن بھی تو پاکستانی انداز سے ہی بناتے اور کھاتے ہیں اور ہونق چینیوں کو بھی تو یہ ڈش چاؤمن کہہ کے ہی کھلاتے ہیں۔
لیکن چینی جب سکولوں میں رائج ہوگی تب ہوگی۔فی الحال تو اگر یہ زرا سستی ہوجائے تو بڑی مہربانی ہوگی۔
پا چن یو ای ، وان سوئے وان سوئے۔۔۔

No comments:

Post a Comment