Saturday 30 June 2018

IND: SUFFERING WATER SHORTAGES MAJORITY POLUATION


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44665753 

انڈیا کی آدھی آبادی کو پانی کے بحران کا سامنا

کسانتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionزیر زمین پانی کی سطح میں کمی آنے کے سبب ابھی سے انڈیا کے بعض حصوں میں پینے کے پانی کی قلت شروع ہو گئی ہے
عالمی بینک نے ماحولیاتی تبدیلی پر اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ آئندہ 30 برس میں گرمی کی شدت میں اضافے اور بارش میں کمی آنے کے سبب انڈیا کی نصف آبادی کے معیار زندگی پر بہت برا اثر پڑے گا۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے وسط میں واقع مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ ریاستیں ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گی۔
عالمی بینک کی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے 60 برس میں درجۂ حرارت میں خاصا اضافہ ہوا ہے اور اس میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا کی نصف آبادی اسی خطے میں رہ رہی ہے جو سنہ 2050 تک ماحولیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے خطے ہیں۔
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ خطے پسماندگی، کمتر میعار زندگی، سڑکوں کی کمی اور بازار تک رسائی کی دشواریوں سے پہلے ہی دو چار ہیں۔ درجۂ حرارت بڑھنے سے ان خطوں کے میعار زندگی میں اور بھی کمی آئے گی۔
یہ بھی پڑھیے
تازہ ترین رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انڈیا کے ساحلی خطے اور پہاڑی علاقے جہاں قدرے ٹھنڈک ہوتی ہے وہاں حالات بہتر ہوں گے۔ موسمی تبدیلی سے نیپال اور افغانستان کو اپنے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔ سب سے زیادہ نقصان بنگلہ دیش کو پہنچے گا جہاں موسمی تبدیلی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں ساڑھے 14 فی صد تک کی کمی آنے کا خدشہ ہے۔
پانیتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionانڈیا کے دارالحکومت دہلی میں پانی کی کمی کی وجہ سے گرمیوں میں جگہ جگہ ٹینکرز نظر آتے ہیں
انڈیا کی سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ریاستوں میں چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان، اتر پردیش اور اورمہاراشٹر شامل ہیں۔ ان ریاستوں میں خشکی اور گرمی کے سبب لوگوں کی آمدنی میں نو فی صد تک کی کمی آ سکتی ہے۔ ان علاقوں میں پہلے ہی پانی کی کمی ہے اور موسمی تبدیلی سے یہاں زرعی پیداوار میں کمی آئے گی جبکہ صحت کے مسائل بڑھ جائیں گے۔
آنے والے عشروں میں انڈیا کو اپنی تاریخ میں پانی کے سب سے طویل بحران کا سامنا ہے۔ ملک کے 60 کروڑ لوگوں کو پانی کی ہلکی یا شدید قلت کا سامنا ہو گا۔ اس سے ملک کی مجموعی داخلی پیداوار میں تقریباً تین فی صد تک کی کمی واقع ہو سکتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کے تعلیم یافتہ ہونے، پانی کی فراہمی کے بہتر نظام اور غیر زرعی سیکٹر میں بہتر مواقع پیدا کرنے سے صورت حال میں تبدیلی آ سکتی ہے۔
انڈیا میں موسمی تبدیلی، آبی آلودگی اور زیر زمین پانی کے حد سے زیادہ استعمال سے کئی علاقوں میں ابھی سے ہی پانی کی قلت شروع ہو گئی ہے۔ روایتی تالابوں، جھیلوں اور پانی کے قدرتی ذخیروں کے سوکھنے سے زیر زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ بعض رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ 15 برس میں دہلی جیسے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی رسائی ختم ہو جائے گی۔
پانیتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionبعض رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ 15 برس میں دہلی جیسے کئی بڑے شہروں میں زیر زمین پانی کی رسائی ختم ہو جائے گی
ملک میں پیدائش کی شرح میں مسلسل کمی آ رہی ہے لیکن اس کے باوجود آبادی میں اضافے کا رحجان عشروں تک جاری رہے گا جس سے پانی کی قلت برقرار رہے گی۔ تقریبا 20 برس قبل سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے پورے ملک میں پانی کی فراہمی سال بھر جاری رکھنے کے لیے ملک کے دریاؤں کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کا ایک بڑا منصوبہ پیش کیا تھا۔ لیکن واجپئی حکومت کے جانے کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس منصوبے پر عمل نہیں کیا۔
انڈیا میں ماحولیات کے ماہرین ایک عرصے سے پانی کی شدید قلت کے بارے میں حکومتوں اور پالیسی سازوں کو متنبہ کرتے آئے ہیں۔ پانی کے بارے میں لوگوں میں بیداری پیدا ہوئی ہے۔ مختلف حکومتوں نے صورت حال بہتر کرنے کے کے لیے بہت سے اقدامات بھی کیے ہیں لیکن موسمی تبدیلی کے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے جنگی پیمانے پر اقدامات کرنے ہوں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں جس نوعیت کے طویل آبی بحران کا سامنا ہے اس کے حل کے لیے ایک طویل مدتی، ٹھوس اور مقررہ مدت کے منصوبے بنانے ہوں گے۔
اس کے لیے حکومتوں کو آنے والے دنوں میں پانی کا ایک بہتر ملک گیرنظام تیار کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔

No comments:

Post a Comment