Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-43771863
چین: 60 ہزار کے ہجوم میں چہرہ شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزم گرفتار
چین میں پولیس نے چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کی مدد سے ایک مطلوبہ ملزم کو گرفتار کر لیا جو 60 ہزار افراد کے ہمراہ ایک کنسرٹ میں شامل تھا۔
آؤ کے نام سے شناخت کیے جانے والا ملزم چین کے شہر نان چنگ میں معروف گلوکار جیکی چیونگ کا کنسرٹ دیکھنے گئے ہوئے تھے۔
پولیس نے کہا کہ 31 سالہ ملزم 'معاشی جرائم' میں ملوث تھا اور وہ گرفتار ہو جانے پر 'حیران' تھا۔
واضح رہے کہ چین بھر میں عوام کی نگرانی کرنے کے لیے 17 کروڑ سے زائد کیمروں پر مبنی نیٹ وسیع و عریض نیٹ ورک نصب کیا گیا ہے۔
ملزم آؤ کو کیمروں نے ٹکٹ خریدنے والے بوتھ ہر شناخت کیا تھا اور جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گئے تو پولیس انھیں گرفتار کرنے پہنچ گئی۔
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے سے بات کرتے ہوئے نان چنگ کے پولیس افسر لی نے بتایا کہ 'ملزم کو جب ہم نے حراست میں لیا تو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا۔'
'اس کو اندازہ نہیں تھا کہ 60 ہزار کے مجمعے میں اسے شناخت کر لیا جائے گا، وہ بھی اتنی جلدی۔'
پولیس افسر لی نے چائنا ڈیلی اخبار کو بتایا کہ ٹکٹ بوتھ پر ایسے کئی کیمرے نصب ہیں جن میں انسانی چہرے کو شناخت کرنے کی ٹیکنالوجی ہے۔
تفصیلات کے مطابق ملزم آؤ 90 کلو میٹر کا سفر طے کر کے نان چنگ اپنی بیوی کے ہمراہ پہنچے تھے تاکہ وہ کنسرٹ میں شرکت کر سکیں۔
خبروں کی ویب سائٹ کان کان نے فوٹیج جاری کی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم پولیس سے بات کرتے ہوئے کہہ رہا ہے کہ 'اگر مجھے معلوم ہوتا تو میں کنسرٹ میں نہ جاتا۔'
ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے کہ چینی پولیس نے چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے مطلوبہ افراد کو گرفتار کیا ہو۔
گذشتہ سال اگست میں پولیس نے شان ڈونگ صوبے میں 25 افراد کو اسی ٹیکنالوجی کی مدد سے حراست میں لیا تھا۔
چین دنیا بھر میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے اور اپنی شہریوں کو اکثر یاد کراتا ہے کہ حکام سے بچنا تقریباً ناممکن ہے۔
ملک بھر میں اس وقت 17 کروڑ سے زائد کیمروں پر مبنی نگرانی کا نظام ہے اور حکومت کا ارادہ ہے کہ اگلے تین سال میں اس کی تعداد 40 کروڑ کیمروں تک پہنچا دی جائے۔
نگرانی کے اس نیٹ ورک میں کئی کیمرے مصنوعی ذہانت اور چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔
No comments:
Post a Comment