Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-45001485
آسام کے 40 لاکھ باشندے انڈین شہریت کی فہرست سے خارج

انڈیا کی حکومت نے ریاست آسام کے 40 لاکھ باشندوں کے نام شہریت کی فہرست سے نکال دیے ہیں تاہم ان افراد کو اپنی انڈین شہریت ثابت کرنے کا ایک اور موقع دیا جائے گا۔
آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کے دفتر میں شہریوں کی دوسری اور آخری فہرست جاری کرتے ہوئے رجسٹرار جنرل آف انڈیا نے بتایا کہ ریاست میں مجموعی طور پر تین کروڑ 29 لاکھ باشندوں نے شہریت کے کاغذات داخل کیے تھے جن میں سے دو کروڑ 89 لاکھ شہریوں کے کاغذات درست پائے گئے۔
یہ بھی پڑھیے
این آر سی کی اس فہرست کے مطابق آسام کے 40 لاکھ باشندے ریاست کے شہری نہیں ہیں لیکن یہ باشندے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے اپنا جواب ستمبر کے اواخر تک جمع کر سکیں گے۔
وزارت داخلہ نے ان باشندوں کو یقین دلایا ہے کہ ان کی شہریت کا حتمی فیصلہ ہونے تک ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جا ئے گی۔
حکومت نے یہ بھی یقین دلایا ہے کہ حکام جواب داخل کرنے میں ان کی مدد کریں گے اور ان کے کاغذات کی تفصیل سے چھان بین کی جائے گی۔
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
این آر سی کی فہرست جاری ہونے کے بعد ریاست کے بنگالی نژاد شہریوں کی آبادیوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔
اگرچہ این آر سی نے ابھی اس کی کوئی تفصیل جاری نہیں کی ہے کہ یہ 40 لاکھ افراد کون ہیں لیکن یہاں بنگالی بولنے والنے باشندوں کو خدشہ ہے کہ وہ شہریت کے تنازعے کی زد میں ہیں۔
آسام اس وقت شدید بے یقینی کی گرفت میں ہے۔ ریاست کے بنگالی بولنے والے بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ انھیں شہریت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
مختلف علاقوں میں بڑی تعداد میں سکیورٹی افواج تعینات کی گئي ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے لوگوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل بھی کی ہے۔
ریاست میں شہریت کے اندراج کے لیے تین کروڑ 29 لاکھ افراد نے درخواستیں اور کاغذات جمع کروائے تھے۔ شہریوں کی پہلی فہرست جنوری میں جاری کی گئی تھی جس میں ایک کروڑ 90 لاکھ لوگوں کے نام شامل تھے۔
حکومت نے کہا ہے کہ جن لوگوں کے نام اس فہرست میں نہیں انھیں اپنا جواب داخل کرنے کے لیے ستمبر تک کا وقت دیا جائے گا تاہم انھیں عدالت میں اپیل کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
وہ اپنے دعوے انھی حکام کو پیش کریں گے جنھوں نے انھیں شہریت سے محروم کیا ہو گا۔

آسام کی تین کروڑ 29 لاکھ کی آبادی میں تقریباً 90 لاکھ بنگالی نسل کے لوگ شامل ہیں جن میں مسلم بنگالیوں کی اکثریت ہے۔
یہ بنگالی نژاد گذشتہ 100 برسوں کے دوران یہاں آ کر آباد ہوئے ہیں۔ بی جے پی اور ریاست کی کئی علاقائی جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہاں لاکھوں بنگلہ دیشی غیر قانونی طور پر آ کر بس گئے ہیں۔
آسام میں بنگالی تارکینِ وطن کے خلاف کئی بار تحریک چلی اور تشدد بھی ہوا ہے۔
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز یعنی شہریوں کی فہرست بنانے کا فیصلہ شہریت کے اس تنازعے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کی غرض سے کیا گیا ہے۔
لیکن شہریوں کو غیر ملکی قرار دینے کے عمل اور طریقے کے بارے میں کئی حلقوں سے سوالات اٹھے ہیں۔
حکومت نے ابھی تک اپنی پالیسی واضح نہیں کی ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ وہ کیا کرے گی جنھیں شہریت اور قومیت سے محروم کر دیا جائے گا۔

گوہاٹی ہائی کورٹ کے سرکردہ وکیل امن ودود کا کہنا ہے کہ ریاست میں شہریوں کو 'مشکوک' اور 'غیر ملکی' قرار دینے کا عمل بہت ہی یکطرفہ ہے۔
ان کے مطابق 'الیکشن کمیشن اور بارڈر پولیس کسی کو غیر ملکی اور مشکوک قرار دینے سے پہلے عموماً تفتیش نہیں کرتی۔ اگر کوئی کاغذات جمع کرواتا بھی ہے تو وہ انھیں ملزم قرار دے کر غیر ملکی ٹرائبیونل بھیج دیتےہیں۔ زیادہ تر لوگ پڑھے لکھے نہیں ہیں، غریب ہیں، انھیں انصاف تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ وہ ٹرائبیونل میں اپنا کیس لڑ نہیں پاتے۔‘
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے ادارے نے گذشتہ مہینے این آر سی کے عمل پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انڈیا کی حکومت کو لکھا تھا کہ ’شہریوں کی فہرست بنانے کا مقصد انڈین شہریوں کو اس میں شامل کرنا ہے لیکن بہت سے حلقوں میں یہ تشویش ظاہر کی گئی ہے کہ مقامی حکام جو اکثر مسلمانوں اور بالخصوص بنگالی نژاد لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں وہ انھیں شہریت کی فہرست سے باہر رکھنے کے لیے جانچ پڑتال کے عمل میں دھاندلی کرسکتے ہیں۔‘
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
اقوام متحدہ نے انڈین حکومت سے یہ بھی پوچھا ہے کہ جن لوگوں کو شہریوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا کیا انھیں حراستی کیمپوں میں قید کیا جائے یا انھیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
دارالحکومت گوہاٹی میں این آر سی کے صدر دفتر سے کچھ ہی فاصلے پر انڈین فضائیہ کے سبکدوش اہلکار سعد اللہ احمد اپنی فیملی کے ساتھ این آر سی کی فہرست کا بہت بے صبری اور بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔
اس فہرست میں اگر ان کا اور ان کی بیوی بچوں کا نام شامل نہیں رہا تو وہ غیر ملکی قرار دیے جائيں گے۔ ان کا 15 برس کا بیٹا سب سے زیادہ پریشان ہے۔
سعد اللہ اور ان کی فیملی کے سبھی لوگ انڈین شہری ہیں لیکن ان کی ایک بہن کو شادی کے بعد متضاد تاریخ پیدائش درج کرنے سے ٹرائبیونل نے انھیں غیر ملکی قرار دیا ہے۔
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
آسام میں شہریوں کے تعین کے جو ضابطے طے کیے گئے ہیں ان کے مطابق اگر فیملی کا ایک بھی شخص غیر ملکی قرار پاتا ہے تو پوری فیملی شہریوں کی فہرست سے باہر ہو جائے گی۔
سعد اللہ کہتے ہیں 'میں نے 20 برس تک فضائیہ میں رہ کر ملک کی خدمت کی۔ میری کئی نسلیں یہیں پیدا ہوئیں اور بڑھیں۔ میرے تین بھتیجے فوج میں ہیں۔ میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ مجھے اپنے ہی ملک میں غیر ملکی قرار دیے جانے کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
SHIB SHANKAR CHATTERJEE
مرکزی حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جن افراد کے نام اس فہرست میں شامل نہیں ہوں گے انھیں فوری طور پر کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہو گا، ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔
سیاسی جماعتوں نے بھی لوگوں سے پرسکون رہنے کی اپیل کی ہے۔ حکومت نے واٹس ایپ اور فیس بک جیسے سوشل میڈیا اور انٹرنٹ پر افواہوں اور جھوٹی خبریں روکنے کے لیے ضروری اقدات کیے ہیں۔
ریاست کے مختلف اضلاع بالخصوص بنگالی نژاد آبادیوں والے اضلاع میں نیم فوجی دستے تعنیات کر دیے گئے ہیں۔
No comments:
Post a Comment