Friday 13 July 2018

THAILAND: FOOTAGES HOW TRAPPED CHILDREN IN A CAVE WERE RESCUED


Source: https://www.bbc.com/urdu/world-44805507

تھائی لینڈ کے بچوں کو غار سے کیسے نکالا گیا؟ تصویری کہانی

An onlooker clasps her hands as she cheers on ambulance taking the childrenتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image caption17 روزہ ریسکیو آپریشن نے تمام ملک کی توجہ مرکوز رکھی
تھائی لینڈ میں فٹ بال ٹیم کے کھلاڑی ایک غار میں سیلاب کے باعث قید ہو کر رہ گئے تو یہ خبر دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ بالآخر منگل کو ان بچوں کو بازیاب کروایا گیا۔ اس کی تصویری جھلکیاں۔
23 جون کو تھائی لینڈ کے 12 بچوں پر مشتمل فٹبال ٹیم اپنے 25 سالہ کوچ کے ہمراہ تھام لوانگ غار کی سیر کرنے گئی۔
یہ غار دس کلومیٹر گہرا ہے اور اس کے اندر ادھر ادھر کئی ذیلی راستے نکلتے ہیں۔ جب وہ غار کے اندر ہی موجود تھے تو تیز بارشوں کے باعث سیلاب آ گیا اور بچوں کی واپسی کا راستہ مسدود ہو گیا۔
جب بچے وقت پر گھر نہیں پہنچے تو انھیں تلاش کرنے کی مہم شروع ہو گئیں۔
جب ان بچوں کے سائیکلیں، بوٹ اور دوسری چیزیں غار کے دہانے کے قریب ملیں تو شک گزرا کہ شاید وہ غار کے اندر پھنس گئے ہیں۔
Bicycles pictured close to the cave's entranceتصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
Presentational white space
People gather in the cave system for a briefing, with special lighting equipment brought inتصویر کے کاپی رائٹEPA
اسی دوران بارشیں جاری رہیں اور غار میں پانی کی سطح بلند ہوتی گئی۔
اتوار کو بچوں کے والدین اور عزیز غار کے دہانے پر پہنچ گئے اور انھوں نے دعائیں مانگنا شروع کر دیں۔
A woman is pictured praying in waterproof hood outside of siteتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
تین دن بعد رائل تھائی نیوی کے غوطہ خور بھی پہنچ گئے۔ نائب وزیرِ اعظم نے بھی غار کا دورہ کیا۔
امدادی کارکنوں نے غار میں داخل ہونے کے متبادل راستے تلاش کرنا شروع کر دیے۔
Rescue personnel carrying diving tanks on their backs gather at the cave siteتصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
Presentational white space
Soldiers relaying electric cables into the cave systemتصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
27 جون تک دنیا کے دوسرے ملکوں سے بھی غوطہ خور اور دوسرے ماہرین پہنچ گئے۔ سوشل میڈیا پر زبردست چرچا شروع ہو گیا۔
رشتہ دار غار کے باہر ہی رہے۔ موسم بدتر ہوتا چلا گیا۔
Cartoon showing the boys hugging rescuersتصویر کے کاپی رائٹTWITTER/@NAMWOON_CCW
پمپوں کی مدد سے غار کے اندر سے پانی کے اخراج کی کوششیں شروع کر دی گئیں مگر مسلسل بارشوں نے اس میں کامیابی نہیں ہونے دی۔
امدادی کارکنوں کا اندازہ تھا کہ بچے غار کے اندر موجود ایک اونچی چٹان پر پناہ لیے ہوئے ہیں جسے ’پتایا کا ساحل‘ کہا جاتا ہے۔
A relative is pictured looking down in a sad manner, in a close-up imageتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Presentational white space
The prime minister holds microphone for relative as he listens to her at an eventتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
وزیرِ اعظم پرایوتھ چان اوچا نے بھی غار کا دورہ کیا اور یہ کہہ کر رشتے داروں کی ہمت بندھائی کہ ’وہ ایتھلیٹ ہیں، وہ مضبوط ہیں۔‘
اب دنیا بھر کا میڈیا بھی وہاں پہنچ گیا اور لمحہ بہ لمحہ خبریں نشر کرنے لگا۔
Dozens of media cameras are pictured, covered with makeshift waterproof protectionتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
30 جون کو بارشوں میں مختصر وقفے کے دوران غوطہ خوروں کو غار کے کافی اندر جانے کا موقع مل گیا۔
Technicians lifting water pumps at drilling site near the cave systemتصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
دو جولائی کو غوطہ خوروں نے بچوں کو دیکھ لیا۔ وہ محفوظ تھے اور غار کے دہانے سے چار کلومیٹر اندر ایک اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے۔
Still from video showing the boys perchedتصویر کے کاپی رائٹROYAL THAI NAVY
Image captionبچوں کی دریافت کی پہلی ویڈیو
Presentational white space
Family members celebrating and looking emotional, as tv cameras film their reaction.تصویر کے کاپی رائٹAFP/GETTY
Image captionخوشی کے مناظر
بچوں کی ایک ویڈیو نشر کی گئی۔ بچوں کو ادویات اور خوراک پہنچائی گئی۔
اس دوران غار سے لاکھوں لیٹر پانی نکالا جا چکا تھا۔ لیکن موسم کا کوئی بھروسہ نہیں تھا۔ بعض ماہرین کا خیال تھا کہ بچوں کو شاید مہینوں تک انتظار کرنا پڑے کہ بارشوں کا موسم ختم ہو اور پانی سوکھ جائے۔
Bulldozer and other heavy equipment pictured at top of cave siteتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Presentational white space
Oxygen tanks pictured outside the siteتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
اسی دوران ایک غوطہ غور آکسیجن ختم ہونے سے ہلاک ہو گیا۔
Saman Gunan's coffin is carried by soldiersتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
اس سے اندازہ ہوا کہ بچوں کو نکالنا کس قدر مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
اسی دوران معلوم ہوا کہ غار کے اندر آکسیجن کی مقدار کم ہو رہی ہے۔
A note written in Thaiتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبچوں نے ایک نوٹ میں اپنے والدین کو لکھا کہ وہ ٹھیک ہیں اور ان کی فکر نہ کریں
آخر کار آٹھ جولائی کو بچوں کو نکالنے کا نازک اور پیچیدہ آپریشن شروع کر دیا گیا جسے ’ڈی ڈے‘ کا نام دیا گیا۔
غوطہ خوروں نے بچوں کو نکالنے کا فیصلہ کر لیا۔ پہلے چار بچے بازیاب کروائے گئے۔
An ambulance with sirens on speeds away from the scene where children were rescuedتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
اس آپریشن کے لیے دہانے سے لے کر بچوں کے مقام تک رسے لگائے گئے۔ بچوں کو سلنڈروں کے ذریعے آکسیجن دے کر پانی کے اندر سے غوطہ لگوا کر باہر لانا تھا۔
پیر کو مزید بچوں کو نکال لیا گیا۔
Nurses pictured outside of Chiangrai Prachanukroh Hospital,تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبازیاب کروائے گئے بچوں کو رفتہ رفتہ دوبارہ سے ٹھوس خوراک کا عادی بنایا گیا
Children smile after being told the news of some of the children's rescuesتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
Image captionبچوں کے ساتھیوں نے آپریشن کی کامیابی کی خبر سن کر خوشی منائی
حکومت نے اس آپریشن کی کارروائی خفیہ رکھی اور بچوں کے نام بھی نہیں ظاہر کیے۔
بچوں کو ہسپتال میں رکھا گیا جہاں ان سے ملنے والوں کی تعداد کو محدود رکھا گیا۔
منگل کو آپریشن کے آخری روز بقیہ بچوں کو بھی نکال لیا گیا۔
Onlookers wave at ambulance going byتصویر کے کاپی رائٹREUTERS
آخر منگل کی شام کو خبر آئی کہ تمام بچے اور ان کے کوچ کو بچا لیا گیا ہے۔
لوگوں نے زبردست جشن منایا اور دنیا بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
A man is pictured watching the news of the boys' rescue on a television in nearby Chiang Raiتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionمقامی لوگ ٹیلی ویژن پر بازیابی کی خبریں دیکھ کر خوشی منا رہے ہیں
Presentational white space
A girl wearing a hat with Wild Boar symbolتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionایک بچی غار کے اندر مقید بچوں کی فٹبال ٹیم کا نشان پہنے ہوئے ہوئے
تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment