Sunday, 1 July 2018

IND. KASHMIR WHEN DOCTOR WAS ASKED TO POSTMORTEM HIS SON DEADBODY

ACTION RESEARCH FORUM: LET IT SAME TO MODI SAME FOR HIS SON. HUMANITY IS ASHMED.


Source: https://www.bbc.com/urdu/science-44659739 

کشمیر: جب ڈاکٹر کے سامنے اپنے ہی بیٹے کی لاش آئی

عبدالغنیتصویر کے کاپی رائٹMAJID JAHANGIR/BBC
Image captionڈاکٹر عبدالغنی کے یہاں ماتم چھایا ہوا ہے
گذشتہ جمعے کو ڈاکٹر عبدالغنی کو تقریباً چار بجے ہسپتال واپس آنے کے لیے فون آیا۔
اس وقت انھیں یہ علم نہیں تھا کہ ہسپتال میں ان کے اپنے بیٹے کی لاش رکھی ہے جسے انھیں مردہ قرار دینا ہے۔
انڈیا کے زیر انتظام پلوامہ ضلعے کے راجپورہ ہسپتال میں پانچ زخمیوں کو داخل کیا گیا تھا، جن میں ڈاکٹر غنی کا لخت جگر بھی تھا جسے گولی لگی تھی۔
جب ڈاکٹر غنی ہسپتال واپس آئے تو انھوں نے اپنے بیٹے کی لاش دیکھی۔
ان کے 15سالہ بیٹے فیضان کو پلوامہ میں ہندوستانی فوج اور شدت پسندوں کے درمیان ایک تصادم میں گولی لگی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جمعے کو جب انڈین سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کے درمیان تصادم جاری تھا اس وقت سینکڑوں مظاہرین فوجیوں پر پتھر پھینک رہے تھے۔ ان میں فیضان بھی شامل تھا۔
جواب میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر پیلٹ گن اور بندوق سے فائرنگ کی۔ اس میں کئی مظاہرین زخمی ہو‏ گئے۔

'آپ کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں'

فیضانتصویر کے کاپی رائٹMAJID JAHANGIR/BBC
Image captionڈاکٹر عبدالغنی کے 15 سالہ بیٹے فیضان کی جمعے کو پولیس فائرنگ میں موت ہو گئی
پولیس کا کہنا ہے کہ تصادم کے دوران فائرنگ میں پانچ شہریوں کو گولی لگی جن میں سے ایک چل بسا۔
فیضان کو ہفتے کو گسوانپورہ میں دفن کر دیا گیا۔ ڈاکٹر غنی نے کہا ہے کہ فیضان کے دل میں گولی ماری گئی ہے۔
وہ بتاتے ہیں: 'میرے بیٹے فیضان کو پہلے دوسرے قریبی ہسپتال لے جایا گیا۔ تقریباً پانچ بجے اسے میرے ہسپتال لایا گیا۔ جب مجھے فون کال آئی تو میں راستے میں ہی تھا، گھر نہیں پہنچا تھا۔ مجھے فوری طور پر ہسپتال آنے کےلیے کہا گیا تھا۔ جب ہسپتال پہنچا تو تین زخمیوں کو دیکھ کر میں نے سرینگر منتقل کرنے کے ریفر کر دیا۔ دو زخمیوں کو چھرے لگے تھے۔'
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے مزید کہا: 'ہسپتال کے میرے ساتھی مجھے دلاسہ دینے لگے۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو انھوں نے بتایا کہ آپ کا بیٹا اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ بیٹے کی لاش دیکھ کر میں ٹوٹ گیا، لیکن ضبط تو کرنا پڑتا ہے۔'
ڈاکٹر غنی نے اپنے بیٹے کی لاش کو سفید چادر میں لپیٹ دیا اور گھر کے لیے روانہ ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں: 'میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اپنے ہی ہسپتال میں اپنے ہی بیٹے کی لاش دیکھوں گا۔ میرے بیٹے کے دل میں گولی ماری گئی ہے۔ یہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اگر پاؤں یا کسی دوسرے حصے میں گولی لگی ہوتی تو میں اسے بچا لیتا، لیکن اس کی موت تو جائے وقوعہ پر ہی ہو گئی تھی۔'
کشمیرتصویر کے کاپی رائٹMAJID JAHANGIR/BBC
Image captionان کے گھر کے باہر لوگوں کا ابھی تک مجمع لگا ہوا ہے
دن بھر کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر غنی کہتے ہیں: 'میں نے صبح بیٹے سے پوچھا تھا کہ سکول جاؤ گے یا نہیں تو اس نے کہا تھا کہ آج جمعہ ہے، آج نصف دن کی چھٹی رہے گی اس لیے میں نہیں جاؤں گا۔ میں نے اس سے کہا کہ بارش ہو رہی ہے آپ گھر میں آرام کرو۔ میں کام کرنے جا رہا ہوں۔ یہ میری اپنے بیٹے سے آخری بات چیت تھی۔'
ڈاکٹر غنی کہتے ہیں کہ انھیں اندیشہ تھا کہ جمعے کی نماز کے بعد کہیں فیضان مظاہروں میں شامل نہ ہو جائے۔ وہ کہتے ہیں: ۔میرا دل اندر سے بے چین تھا۔ دن بھر یہی انتظار تھا کہ گھر جاؤں اور اپنے بیٹے اور خاندان کے ساتھ کھانا کھاؤں۔'
یہ بھی پڑھیے
15 سالہ نوجوان جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہا تھا۔ ڈاکٹر غنی کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں وہ کشمیر کے مسئلے پر بہت سنجیدہ رہنے لگا تھا۔ عمر کے ساتھ اس میں سیاسی اور سماجی شعور پیدا ہو رہا تھا۔

'انتہا پسندی میں اضافے پر بےچینی

انھوں نے کہا کہ ان کا بیٹا گذشتہ چھ ماہ سے کشمیر کی آزادی کے مسئلے سے لگاؤ محسوس کر رہا تھا۔ وہ بڑھتی ہوئی انتہا پسندی اور تشدد کے بارے میں متفکر رہتا تھا۔
فیضان کی والدہتصویر کے کاپی رائٹMAJID JAHANGIR/BBC
Image captionفیضان کی والدہ کا رو رو کر برا حال ہے
ڈاکٹر عبدالغنی کہتے ہیں کہ 'وہ فوج کی کارروائیوں پر اپنی رائے رکھتا تھا اور سوال کرتا تھا کہ کشمیر میں عام اور معصوم لوگوں پر پیلٹ گن چلائی جاتی ہیں، جن کے ہاتھ میں بندوق نہیں ہوتی انھیں بھی گولی مار دی جاتی ہے اور کوئی اس مسئلے پر بات بھی نہیں کرتا۔'
حالیہ برسوں میں کشمیر میں تشدد کا جو دور شروع ہوا ہے اس میں 15 سالہ فیضان کی موت بھی شامل ہے۔
اب اس کے گھر سے رونے کی آوازیں آتی ہیں۔ ماں اس کی یاد میں اپنے حواس کھوتی جا رہی ہے۔
اہنڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوجی کی گولی سے عام شہری کی ہلاکت نئی بات نہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2017 میں انتہا پسندوں کے ساتھ تصادم کے دوران سکیورٹی فورسز کی گولیوں سے 78 مظاہرین ہلاک ہو چکے ہیں۔
یہ سلسلہ سنہ 2018 میں بھی جاری ہے اور اب تک ایسے واقعات میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اس وقت کشمیر میں گورنر راج نافذ ہے اور غیر مستحکم سیاسی حالات نے ماحول کو زیادہ مزید کشیدہ کر دیا ہے۔
فوج نے رمضان کے مہینے میں یکطرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا جو عید کے بعد ختم ہوا۔ گذشتہ 15 دنوں میں کشمیر میں تقریباً ایک درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment