Friday, 13 July 2018

IND SUBCONTINENT: CAN BE INDIA HINDO PAKISTAN


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44808683

انڈیا ہندو پاکستان بن سکتا ہے!

ششی تھرورتصویر کے کاپی رائٹHINDUSTAN TIMES/GETTY
Image captionششی تھرور اکثر خیوں میں رہتے ہیں
انڈیا اگر ہندو پاکستان بن جائے تو کیا ہو گا، ہندو پاکستان بننے کے لیے اسے کیا کرنا ہو گا، اور ہندو پاکستان سے آخر مراد کیا ہے؟
کانگریس پارٹی کے لیڈر ششی تھرور تنازعات کے قریب ہی رہتے ہیں۔ اس مرتبہ انھوں نے کہا ہے کہ اگر آئندہ برس کے پارلیمانی انتخابات میں موجودہ حکمران جماعت بی جے پی جیت جاتی ہے تو وہ انڈیا کو ہندو پاکستان میں تبدیل کر دے گی۔

یہ بھی پڑھیں

انڈیا اور پاکستان کا کسی بھی طرح موازنہ کیا جائے تو ملک میں سیاسی طوفان آ ہی جاتا ہے۔
مئی میں راہل گاندھی نے کہا تھا کہ انڈیا میں پاکستان جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں۔
انھوں نے یہ بات سپریم کورٹ کے چار ججوں کی پریس کانفرنس کے تناظر میں کہی تھی جس میں عدالت کے چار اعلیٰ ترین ججوں نے چیف جسٹس کے کام کرنے کے طریقے پر سوال اٹھائے تھے۔ ان کا اشارہ حکومت کی جانب سے مداخلت کی طرف تھا۔
راہل گاندھی کا کہنا تھا کہ ملک میں خوف اور عدم استحکام کا ماحول ہے۔۔۔آر ایس ایس تمام اداروں میں جگہ بنا رہی ہے۔۔۔عدالت، پریس اور خود بی جے پی کے اراکین پارلیمان خوف کے سائے میں ہیں اور وزیراعظم کے خلاف ایک لفظ نہیں بول سکتے۔
راہل گاندھیتصویر کے کاپی رائٹTHE INDIA TODAY GROUP
Image captionراہل گاندھی بھی بی جے پی کے سخت گیر رویے پر متنازع بیان دیتے رہتے ہیں
تو انڈیا میں بنیادی طور پر پاکستان کی یہ تصویر ہے۔ حزب اختلاف کانگریس کے لیے بھی اور حکومت کے لیے بھی۔ اور پاکستان سے کسی بھی طرح موازنہ زبردست توہین مانی جاتی ہے۔
اس لیے کسی پر تنقید کرنی ہو تو زیادہ دور نہیں دیکھنا پڑتا۔
اسی پس منظر میں ششی تھرور نے کیرالہ میں اپنے انتخابی حلقے میں یہ بات کہی۔ بی جے پی ظاہر ہے کہ خوش نہیں ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ کانگریس پارٹی نے تمام ہندوستانیوں کی توہین کی ہے اس لیے خود راہل گاندھی کو معافی مانگنی چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو اگر پاکستانیوں سے محبت کرنی ہے تو کریں لیکن ہندوستانیوں سے نفرت، یہ درست نہیں ہے۔‘
ششی تھرور اور انکی مرحوم اہلیہ سنندہ پشکرتصویر کے کاپی رائٹGRAHAM CROUCH
Image captionکہا جاتا ہے کہ ششی تھرور تناغیوں کی قریب رہتے ہیں
اپنے بیان کے بعد ششی تھرور بہت ڈیمانڈ میں ہیں۔ ہر ٹی وی چینل پر ان کا انٹرویو چل رہا ہے۔ وہ اپنے موقف پر قائم بھی ہیں اور اس کی تشریح بھی کر رہے ہیں۔ اپنے فیس بک پیج پر انہوں نے اپنا نظریہ پاکستان تفصیل سے بیان کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان مذہب کی بنیاد پر قائم کیا گیا تھا اور وہاں اقلیتوں کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے، اور انھیں مساوی حقوق سے محروم رکھا جاتاہے۔۔۔انڈیا نے وہ نظریہ کبھی تسلیم نہیں کیا جس پر ملک تقسیم ہوا تھا۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس کا نظریۂ ہندوستان (آئیڈیا آف انڈیا) پاکستان کا ہو بہو عکس ہے۔۔۔ ایک ایسی ریاست جہاں ایک مذہب کی بالادستی ہے اور جہاں اقلیتوں کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔۔۔ایسا ملک ہندو پاکستان ہو گا اور یہ اس ملک کی تصویر نہیں ہے جس کے لیے آزادی کی لڑائی لڑی گئی تھی۔‘
انڈیا میں جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے، عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ عدم رواداری میں اضافہ ہوا ہے اور کبھی گاؤ کشی تو کبھی تبدیلی مذہب یا نام نہاد لو جہاد کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
ششی تھرورتصویر کے کاپی رائٹPACIFIC PRESS
Image captionششی تطرور کیرالہ میں اپنے انتخابی حلقے میں با ت کر رہے تھے
ششی تھرور کا کہنا ہے کہ اگر بی جے پی دوبارہ حکومت میں آ جاتی ہے تو وہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو پوری طرح عملی شکل دینے کی کوشش کرے گی اور انڈیا کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیا جائے گا کیونکہ یہی آر ایس ایس کا نصب العین ہے، اور اس نظریے سے وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی نے کبھی فاصلہ اختیار نہیں کیا ہے۔
ششی تھرور کے بیان کی بازگشت اب وزیر اعظم نریندر مودی کی ہر تقریر میں سنائے دے تو کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ بی جے پی کی یہ کوشش رہتی ہے کہ کانگریس کو ’پاکستان ہمدرد‘ پارٹی کے طور پر پیش کیا جائے، اور اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ جب کانگریس کے لیڈر ایسے بیان دیتے ہیں (جن میں حکومت، فوج یا کسی ادارے پر تنقید کی گئی ہو) تو پاکستان میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔
گجرات میں 2007 کے اسمبلی انتخابات کے دوران سونیا گاندھی نے ریاست میں ییش آنے والے مذہبی فسادات کا ذکر کرتے ہوئے بی جے پی اور اس کے رہنما نریندر مودی کو ’موت کے سوداگر‘ کہا تھا اور تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ ان کے اس بیان کی پارٹی کو بھاری سیاسی قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔
بی جے پی کا یہ بھی الزام ہے کہ ملک میں کانگریس نے ہی ہندوؤں کو بدنام کرنے کے لیے ’ہندو دہشتگردی‘ کی اصطلاح ایجاد کی تھی۔

No comments:

Post a Comment