ACTION RESEARCH FORUM: SO CALLED LARGEST DEMOCRACY MOST BACKWORD IN JUDGEMENT OF WOMEN RAPING, FACIAST HINDUATA RAJ CRUSHUING WEAKER.
Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44679644
Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44679644
انڈیا: ریپ کی متاثرہ خاتون دو سال بعد بھی انصاف کی منتظر
انڈیا میں جرائم کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہر 13 منٹ میں ایک عورت کا ریپ کیا جاتا ہے لیکن ان ملزمان کی واضح اکثریت کو سزا نہیں ملتی۔
بی بی سی ہندی کی ساروپریا سانگوان کی جانب سے کی گئی تحقیق جس کی مدد سے ایک دو سال پرانے ریپ کے مقدمے میں ملزم کی گرفتاری ہوئی ہے۔
للیتھا (اصل نام نہیں) 16 برس کی ہیں لیکن ان کی زندگی اپنی ہم عمر دوسری لڑکیوں جیسی نہیں ہے۔ ان کا ڈیڑھ سال کا ایک بیٹا ہے۔ للیتھا 2016 میں حاملہ ہوئی تھیں جب ان کو ایک جاننے والے نے ریپ کیا تھا۔
دلِت برادری میں پیدا ہونے والی للیتھا کا تعلق انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش کے ایک گاؤں سے ہے اور ان کی ایک اور بہن ہے۔ ان کے والد ایک مزدور ہیں جبکہ ان کی ماں نہیں ہیں۔
انڈیا میں ریپ کے واقعات کے بارے میں جاننے کے لیے مزید پڑھیے
للیتھا کے ریپ کے الزام میں ملوث شخص ان کے والد کا دوست ہے جس نے للیتھا کو لکھنؤ لے جانے کا وعدہ کیا تھا اور اُس سفر کے بہانے چاقو کی نوک پر للیتھا کا مبینہ طور پر ریپ کیا۔
گھر واپسی پر للیتھا نے اپنے والد کو کچھ نہیں بتایا۔ لیکن چند ماہ بعد جب ان کے حمل کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوئی اور محلے کی خواتین نے سوالات پوچھنے شروع کیے تو للیتھا نے انھیں حقیقت بتائی۔
'میں صرف اس کو جیل میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری صرف یہ خواہش ہے۔'
للیتھا کے والد نے واقعے کے چھ ماہ بعد جون 2016 میں پولیس کو رپورٹ درج کرائی لیکن ملزم کی حراست دو سال بعد جون 2018 میں ہوئی وہ بھی تب جب بی بی سی ہندی نے اس مقدمے میں ہونے والی کارروائی کے بارے میں اپنی تحقیق شائع کی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ اس کیس میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے۔
بی بی سی ہندی کی تحقیق کے مطابق ملزم کو حراست میں لیے جانے سے قبل تک اس کے خلاف کوئی الزامات نہیں درج کیے گئے تھے۔
پولیس نے اس حوالے سے کہا کہ ملزم کے ڈی این اے کے نتائج کا انتظار ہو رہا تھا۔ ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ لکھنؤ شہر میں ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مقدمات ڈی این اے کے نتائج آنے کی وجہ سے التوا میں ہیں۔
انڈیا میں ریپ سماجی طور پر رسوائی کا باعث سمجھا جاتا ہے اور کئی خواتین پولیس میں رپورٹ درج کروانے سے کتراتی ہیں۔ اور جو خواتین پولیس جاتی بھی ہیں انھیں کئی سالوں تک تھانوں اور عدالتوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ پولیس کی کارکردگی ہے کیونکہ ان کے پاس کام زیادہ ہے اور تنخواہیں نہایت قلیل اور عدالتوں میں پرانے مقدمات کی طویل فہرست پڑی ہوئی ہے۔
للیتھا جیسے کئی اور لوگ جو غریب اور ناخواندہ ہیں، ان کے لیے تو معاملات اور بھی خراب ہیں۔ اور پھر دلت برادری سے تعلق رکھنے والے افراد طبقاتی عدم مساوات کی وجہ سے انڈیا میں ویسے ہی مشکل زندگی گزارتے ہیں۔
انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے ایک حالیہ فیصلے سے دلت برادری کے حق میں بنائے گئے قانون کی طاقت میں کمی آنے کا اندیشہ ہے۔ اس قانون کے تحت دلت خواتین کا اگر ریپ ہو تو انھیں سرکاری طور پر پانچ لاکھ روپے مالی معاوضہ عطا کیا جائے گا جبکہ اجتماعی زیادتی کی صورت میں آٹھ لاکھ روپے ملیں گے۔
زیادتی کے شکار افراد کو یہ معاوضہ ریاست کی حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے اور اس کے لیے شرط ہے کہ پولیس مقدمہ درج کرے لیکن اس کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ملزم کے خلاف سزا ثابت ہو۔
لیکن للیتھا اور ان کے والد کہتے ہیں کہ انھیں نہ کوئی پیسے ملے ہیں اور نہ ہی انھیں اس بات کا علم تھا کہ وہ اس معاوضے کے حقدار ہیں اور کسی نے انھیں اس بارے میں بتایا بھی نہیں۔
تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ للیتھا نے مجسٹریٹ کے سامنے بیان پولیس کی رپورٹ درج کرانے کے 25 دن بعد ریکارڈ کرایا جبکہ قانون کے مطابق یہ بیان 24 گھنٹوں کے اندر درج کرا دیا جانا چاہیے اور دیر ہونے کی صورت میں پولیس کو تحریری وضاحت جمع کرانی ہوتی ہے کہ بیان ریکارڈ کرانے میں تاخیر کیوں ہوئی۔
اس تفتیش کے دوران بی بی سی کی کئی سرکاری افسران سے ملاقات ہوئی جن میں مقامی پولیس، ضلعی مجسٹریٹ اور دلت ویلفیئر کمیشن کے ریاستی سربراہ شامل ہیں تاکہ ان سے معلوم کیا جا سکے کہ للیتھا کے کیس میں اتنی دیر کیوں ہوئی اور اس کی بیان اتنی دیر سے کیوں ریکارڈ کیا گیا اور اس کو تلافی معاضہ کیوں نہیں دیا گیا حالانکہ وہ اس کی حقدار تھی۔
مختلف دفاتر کے چکر کاٹنے کے باوجود مجھے کوئی واضح جواب نہیں ملا لیکن ان تمام افراد نے اقرار کیا کہ انصاف کی فراہمی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔
ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ 'ہمیں معاوضہ دو سال پہلے دے دینا چاہیے تھا لیکن کوئی بات نہیں، ہم کل بھیج دیں گے پیسے۔'
اگر للیتھا کو معاوضے کی رقم مل جاتی تو وہ اس کے بچے کی پیدائش اور اس کے بعد آنے والے اخراجات کی مد میں کام آتی۔
اس کے علاوہ ایک اور فرق للیتھا کی عمر کے بارے میں آیا جب پولیس رپورٹ میں اس کی عمر 20 سال بتائی گئی جبکہ اس کے والد کے مطابق ریپ کے وقت ان کی بیٹی کی عمر 14 برس تھی۔
پولیس کا کہنا تھا کہ میڈیکل رپورٹ غلط نہیں ہو سکتی لیکن بی بی سی ہندی نے جن دستاویزات کا جائزہ لیا ہے انھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ میڈیکل رپورٹ میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ تاہم پولیس نے اس کی تردید کی ہے۔
للیتھا کے والد کو پولیس کی تفتیش پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ ملزم نے پولیس پر اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کیا ہے۔
واقعے کے بعد للیتھا کی اپنے رشتےدار سے شادی ہو چکی ہے جنھوں نے بچے کی پیدائش کا خرچہ اور دوسرے اخراجات کا ذمہ اٹھایا ہے۔
بی بی سی ہندی میں رپورٹ چھپنے کے بعد ملزم کو حراست میں لے لیا گیا اور اس واقعے کی پولیس تفتیش کا آغاز ہو چکا ہے اور اب عدالتی کارروائی کا انتظار ہے۔
No comments:
Post a Comment