اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کی صورت حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے عدلیہ، ایگزیکٹیو اور دیگر اداروں میں حساس اداروں کی مداخلت کو روکیں۔
عدالت نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ اپنے لوگوں کو روکیں جو حساس اور اہم معاملات میں اپنی مرضی کے بینچ بنوانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ حساس اداروں کی طرف سے اس معاملے میں عدلیہ میں ججز سے رابطے کیے جاتے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ججز کی فون کال بھی ٹیپ کی جاتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ججز کی زندگیاں بھی محفوظ نہیں ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’آرمی چیف کو معلوم ہونا چاہیے ان کے لوگ کیا رہے ہیں۔‘
عدالت نے آرمی چیف کو اس معاملے کا نوٹس لینے کے بارے میں بھی درخواست کی۔
واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور مریم نواز کی احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو جونئیر ترین ججز پر مشتمل ڈویژن بینچ تشکیل دیا گیا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان دونوں ججز سے سینیئر جج صاحبان شہر میں موجود ہیں۔
کچھ عرصے سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے اسلام آباد کے شہری رب نواز کی بازیابی کے بارے میں عدالت نے اسلام آباد پولیس کو 18 جولائی تک کی مہلت دے رکھی تھی۔
بدھ کو جب عدالت میں رب نواز کو پولیس نے پیش کیا تو انھوں نے عدالت کو بتایا کہ انھیں کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ خود اپنی مرضی سے گئے ہیں جس پر بینچ کے سربراہ نے رب نواز سے کہا کہ کیا وہ یہ بات حلفاً کہہ سکتے ہیں۔ اس پر رب نواز کے ساتھ آئے ہوئے شخص نے عدالت کو بتایا کہ رب نواز جھوٹ بول رہے ہیں اور اُنھیں زبردستی اغوا کیا گیا تھا۔
بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت سے شہریوں، تاجروں اور دیگر افراد کو جبری طور پر لاپتہ کرنا ایک معمول کی کارروائی بن چکی ہے جس کو روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کمرہ عدالت میں موجود اسلام آباد پولیس کے حکام کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ وہ خفیہ اداروں کے ماتحت بنے ہوئے ہیں۔
اُنھوں نے پولیس حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’جب وہ مجروں میں جاکر نوٹ نچھاور کریں گے اور ان کی ویڈیوز ان خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے پاس ہوتی ہیں جس کی بنا پر وہ ان کے سامنے کچھ بول نہیں سکتے۔‘
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق کی تنظیمں لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کے واقعات میں خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کا الزام لگاتی ہیں۔
بینچ کے سربراہ نے کمرہ عدالت میں موجود حساس ادارے کے اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی حدور پہچانیں اور خود کو عقلِ کُل مت سمجھو۔ اُنھوں نے کہا کہ خود کو عقلِ کُل سمجھنے والوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ایجنسیوں کی طرف سے ریاست کے اندر ریاست کا قیام ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔
Image captionآئی ایس آئی کا ہیڈ کوارٹر شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے سڑک کا دو کلومیٹر کا حصہ عوام کے لیے بند ہے
عدالت نے آرڈر شیٹ کی کاپی آرمی چیف،ڈی جی آئی ایس آئی، سیکریٹری دفاع اور سیکریٹری داخلہ کو پہنچانے کا بھی حکم دیا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے رکن پارلیمان کے حلف میں مبینہ تبدیلی کے خلاف ایک جماعت کی طرف سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد کے مقام پر دیے گئے دھرنے کو ختم کروانے میں فوج کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ فوج حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے اور آرمی چیف کا نام کیسے حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں ثالثی کے طور پر لکھا جا سکتا ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے سے گزرنے والی شاہراہ کو عدالتی حکم کے باوجود نہ کو کھولنے پر سیکریٹری دفاع اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی طلب کیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہوا ہے جس کی سماعت چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل اس ماہ کے آخر میں کرے گی۔
سپریم کورٹ کے سینیئر جج صاحبان جن میں جسٹس عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الااحسن اور جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف بھی عرصہ دراز سے ریفرنس زیر التوا ہیں لیکن اُنھیں ابھی تک سماعت کے لیے مقررنہیں کیا گیا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پاکستان کسی فوجی نے نہیں بنایا بلکہ لوگوں کی جدوجہد سے بنا ہے جس میں ’ہمارے پیاروں کا لہو‘ بھی شامل ہے۔
بدھ کو فیض آباد دھرنے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ پاکستانی عوام کو طاقت کے ذریعے دباؤ میں رکھیں گے تو یہ اُن کی غلط فہمی ہے‘۔
نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق بینچ میں شامل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت دفاع کے اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے دھرنے سے متعلق نئی رپورٹ جمع کیوں نہیں کروائی جس کا جواب دیتے ہوئے وزارت دفاع کے اہلکار کا کہنا تھا کہ عدالت نے دوسری رپورٹ کے بارے میں نہیں کہا تھا۔
بینچ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ جب اس بارے میں پہلی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ دوسری رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزارت دفاع کے اہلکار سے استفسار کیا کہ دھرنے کے شرکا کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا کہ اُن کو مالی معاونت کہاں سے ملتی تھی جس پر کرنل فلک ناز کا کہنا تھا کہ چونکہ دھرنا دینے والوں کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے ہے اس لیے ان کے فرقے سے تعلق رکھنے والے مدارس سے اُنھیں امداد ملتی رہی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ان افراد کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے جو ان کو وسائل فراہم کرتے رہے ہیں ورنہ دھرنا دینے والے کوئی خاندانی رئیس نہیں ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ اگر چند لوگ طاقت کے ذریعے قبضہ کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ فیض آباد پر دھرنا دینے والوں نے اسلام کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ان کے اس اقدام سے لوگ اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ’دھرنا دینے والی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی نے چیف جسٹس سمیت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو گالیاں دیں لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘۔
تصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
عدالت نے آئندہ سماعت پر وزارت دفاع کے سیکرٹری لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الحسن شاہ اور اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
سماعت کے دوران نجی ٹی وی چینلز جیو اور ڈان کے نمائندوں نے عدالت کو بتایا کہ اُن کے چینل فوجی علاقوں یعنی کینٹونمنٹ میں نہیں دکھائے جا رہے جس پر عدالت نے پیمرا کے نمائندے کو طلب کیا تو اُنھوں نے اس کی تصدیق کی کہ اُن کو اس طرح کی شکایات ملی ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر ملک کو سکیورٹی سٹیٹ بنانا چاہتے ہیں تو بھی بتا دیں‘۔
اُنھوں نے کہا کہ میڈیا مارشل لا کے دور میں آزاد تھا نہ اب ہے۔
اس از خود نوٹس کی سماعت دس روز کے لیے ملتوی کردی گئی ہے۔
No comments:
Post a Comment