GLOBAL RESEARCH FINDINGS ON ‘MUSLIMS RUN-THROUGH’ BY NAJAM ABBAS bbc urdu
GLOBAL RESEARCH FINDINGS ON ‘MUSLIMS RUN-THROUGH’
مسلم آراء و اطوار پر عالمی تحقیق
ڈاکٹر نجم عباس
ڈاکٹر نجم عباس
سینیئر فیلو، ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ، (سنٹرل اینڈ ساؤتھ ایشیا) لندن
آخری وقت اشاعت: جمعـء 28 ستمبر 2012 , 00:17 GMT 05:17 PST
آخری وقت اشاعت: جمعـء 28 ستمبر 2012 , 00:17 GMT 05:17 PST
واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر نے انتالیس ممالک میں اڑتیس ہزار جواب دہندگان کے انٹرویو پر مبنی دنیا کی اسی مختلف زبانیں بولنے والوں سے مسلم سوچ کے بارے میں تحقیق کے نتائج جاری کیے ہیں۔ رائے عامہ کے ان جائزوں میں ان لوگوں کی مذہبی فکر، طرز عمل اور اعتقادات کے بارے میں سوال پوچھے گئے ہیں۔ اس کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتقادات اور بنیادی ارکان اسلام پر پابندی کے بارے میں مسلمانوں میں عمومی طور پر ہم آہنگی پائی جاتی ہے تاہم عبادات و معاملات پر روّیوں میں قابل ذکر تنوع پایا جاتا ہے جس میں مقامی ثقافت اور ماضی کے نظریاتی ادوار کا اثر پایا جاتا ہے۔
یہ سروے جو سنہ دو ہزار آٹھ اور سنہ دو ہزار بارہ کے درمیان کیے گئے۔ ان سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہےکہ ایک واضح اکثریت دین پر عمل پیرا ہونے کیلئے ایک مکتب فکر کے ساتھ مستقل وابستگی کو ترجیح دیتی ہے جسے وہ اپنی سوچ سے ہم آہنگ سمجھتے ہیں۔ تاہم کچھ چنیدہ ممالک میں لوگ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ طرز عمل میں ردوبدل کے قائل ہیں۔
اس سوال پر کہ آیا مذہب کی ایک تشریح ہونی چاہیئے یا کئی، افریقہ کے ہر ملک میں پچاس فیصد سے زائد جواب دہندگان نے کہا کہ واحد تشریح ہونی چاہیئے۔ ایشیائی ممالک میں یہ جواب انسٹھ فیصد نے، مصر میں اٹھہتر فیصد نے اور اردن میں چھہتر فیصد لوگوں نے یہ جواب دیا۔ بوسنیا اور تاجکستان دونوں میں دوتہائی سے زیادہ لوگوں کی بھی یہی رائے تھی۔ تا ہم امریکہ میں مقیم ستاون فیصد مسلمانوں نے کہا کہ اسلام کی ایک سے زیادہ تعبیریں ممکن ہیں جبکہ سینتیس فیصد لوگ ایک تشریح کے حق میں ہیں۔
طرز فکر میں فرق کی چند خاص خاص مثالیں یوں ملتی ہیں: وسطی ایشیا کے چار ملکوں ازبکستان، تاجکستان، قازقستان اور قرغزستان میں پچاس فیصد سے زائد لوگوں نے صوفیانہ رقص کو ناپسندیدہ قرار دیا۔ افغانستان، ترکی، روس، مصر اور اردن میں تین چوتھائی سے زائد لوگوں نے دینی خصوصاً حمدیہ شاعری کو درست قرار دیا۔
انڈونیشیا، ملائیشیا، عراق، تیونس، اور کیمرون میں ایک بڑی تعداد جادو ٹونے اور اس کے اثرات کو تسلیم کرتی ہے۔ ان ملکوں میں کانگو اور تنزانیہ شامل ہیں۔ افریقہ کے سولہ ممالک میں کم از کم ایک چوتھائی لوگوں نے جنّات کے اثر اور انہیں اتارنے کے بارے میں علم ہونے کا ذکر کیا جبکہ مغربی افریقہ کے ایک تہائی جواب دہندگان نے جنّات خود دیکھنے کا بتایا۔
سروے میں ایک قابل ذکر تعداد نے بتایا کہ وہ نظربد سے حفاظت کیلئے گھر میں کوئی اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا تناسب ترکی، افغانستان اور روس کے مسلمانوں میں پینتیس فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ انڈونیشیا میں صرف چار فیصد لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہاں پر اٹھانوے فیصد نے جواب دیا کہ وہ سالانہ زکواۃ دیتے ہیں جبکہ ملائیشیا میں یہ نسبت ترانونے فیصد ہے، وسطی ایشیا میں سروے کے جواب دہندگان نے بتایا کہ چھتیس فیصد سے زائد ہر سال زکواۃ ادا کرتے ہیں۔ یوں مشرقی ایشیا کے مسلمان ارکانِ اسلام کی پابندی کرنے میں دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہیں۔
سروے میں ایک قابل ذکر تعداد نے بتایا کہ وہ نظربد سے حفاظت کیلئے گھر میں کوئی اہتمام کرتے ہیں۔ ان کا تناسب ترکی، افغانستان اور روس کے مسلمانوں میں پینتیس فیصد سے زیادہ ہے، جبکہ انڈونیشیا میں صرف چار فیصد لوگ ایسا کرتے ہیں۔ وہاں پر اٹھانوے فیصد نے جواب دیا کہ وہ سالانہ زکواۃ دیتے ہیں جبکہ ملائیشیا میں یہ نسبت ترانونے فیصد ہے، وسطی ایشیا میں سروے کے جواب دہندگان نے بتایا کہ چھتیس فیصد سے زائد ہر سال زکواۃ ادا کرتے ہیں۔ یوں مشرقی ایشیا کے مسلمان ارکانِ اسلام کی پابندی کرنے میں دنیا کے دوسرے خطوں کے مقابلے میں زیادہ پرجوش ہیں۔
انڈونیشیا میں مسجد جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے جبکہ ملائیشیا میں ننانوے فیصد نے روزہ کی پابندگی کے بارے میں بتایا۔ جہاں مشرق وسطی اور افریقہ میں سترہ فیصد نے ادائیگی حج پورا کرنے کے بارے میں بتایا۔ مشرق بعید میں یہ تناسب چھ فیصد تھا۔ مشرق بعید کے مسلمانوں کا عمل دوسرے خطوں سے یوں جدا ہے کہ وہاں خواتین مساجد جاتی ہیں جبکہ وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا میں اقدار کا سب سے نمایاں فرق ان ریاستوں میں خواتین کا مسجد نہ جانا ہے۔
روفیسر مارک لینچکی رائے میں یہ سوچنا غلط ہوگا کہ اسلامی فکر پر عمل پیرا نوجوانوں کی لہر مشرق وسطی کی نئی صورتگری کر رہی ہے۔ سروے کے مطابق پینتس سال سے زیادہ عمر کے مسلمان اس عمر سے کم لوگوں سے زیادہ مذہبی روّیہ رکھتے ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد نماز پڑھنے، مسجد جانے، روزانہ تلاوت کی طرف راغب ہے اور مذہب کو اپنی زندگی کا ایک اہم جز گردانتی ہے۔ ان دونوں جانب میں آراء کا فرق اور طرز عمل کا فرق کافی زیادہ ہے۔ مراکش اور تیونس میں درمیانی عمر اور جوان عمر افراد کی رائے میں اٹھارہ فیصد سے زیادہ فرق ہے، جبکہ فلسطین میں درمیانی عمر میں مذہب کا شغف جوان عمر جواب دہندگان سے تیئس فیصد زیادہ ہے، کسی اور خطے کے مقابلہ میں مشرق وسطی میں یہ فرق زیادہ واضح طور پر سامنے آیا ہے۔
ایک نمایاں بات یہ ہے کہ روس میں پینتیس سال سے کم عمر جواب دہندگان نے بتایا کہ مذہب کا ان کی زندگی میں ایک اہم مقام ہے جبکہ درمیانی عمر کے اکتالیس فیصد لوگوں نے ایسا کہا۔
جن ملکوں میں کمیونزم یا الحاد کا دور گزرا ہے وہاں بتدریج لوگ دین کی اہمیت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ قازقستان میں ستانوے فیصد اور تاجکستان و قرغزستان میں چالیس فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے بتایا کہ دین ان کی زندگی میں کس حد تک ایک اہم درجہ رکھتا ہے۔ تاجکستان میں پچاس فیصد کیلئے انتہائی اہم اور اکتالیس فیصد کے نزدیک کسی درجہ تک اہم پایا گیا۔ روس، آذربائیجان اور قرغرستان میں روزداروں کی تعداد بڑی ہے۔ مصر، اردن اور مراکش میں دوتہائی سے زیادہ تعداد نے مزارات پر حاضر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
آذربائیجان، وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مغربی افریقہ میں پینتیس سے پچاس فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہوں نے یا ان کے گھر والوں نے علاج کیلئے روحانی عامل سے رجوع کیا ہے۔
وسطی ایشیا، مشرقی یورپ، انڈونیشیا نیز مغربی اور وسطی افریقہ کے جواب دہندگان نے بتایا کہ بچپن میں ان کی پرورش ایک عام مسلمان کی حیثیت سے ہوئی نہ کہ کسی مخصوص فرقے سے وابستگی کے ساتھ۔
پروفیسر حاقان یفوذ کے مطابق وسطی ایشیائی مسلمانوں کیلئے جو نسبتاً تعداد میں کم اور دیگر مسلم ملکوں سے دور رہے ہیں فرقہ وارانہ وابستگی زیادہ اہم نہ تھی اور معاملات میں دینی اثر محدود تھا۔ اس کی ایک وجہ سات دھائیوں تک الحاد کی تعلیم و ترویج کے اثرات بھی ہیں۔ تاہم گزشتہ بیس برسوں میں نئی نسل کو نظریہ و عمل کے بارے میں زیادہ تعلیم حاصل ہوئی ہے اور دیگر مسلم ممالک تک آمد و رفت سے دینی شعور گہرا ہوا ہے۔
کمیونسٹ دور میں لوگ انفرادی معاملات پر اندرون خانہ زیادہ پابندی کرتے تھے اور اس کے اجتماعی اظہار میں احتیاط کرتے تھے۔ تاجکستان میں اٹھاسی فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے پچیس سے چالیس فیصد جواب دہندگان (خصوصاً البانیا اور کوسووو) نے بتایا کہ انہوں نے کبھی قرآن کی تلاوت نہیں کی۔
ایک نمایاں بات یہ ہے کہ روس میں پینتیس سال سے کم عمر جواب دہندگان نے بتایا کہ مذہب کا ان کی زندگی میں ایک اہم مقام ہے جبکہ درمیانی عمر کے اکتالیس فیصد لوگوں نے ایسا کہا۔
جن ملکوں میں کمیونزم یا الحاد کا دور گزرا ہے وہاں بتدریج لوگ دین کی اہمیت کا اعتراف کرنے لگے ہیں۔ قازقستان میں ستانوے فیصد اور تاجکستان و قرغزستان میں چالیس فیصد سے زیادہ جواب دہندگان نے بتایا کہ دین ان کی زندگی میں کس حد تک ایک اہم درجہ رکھتا ہے۔ تاجکستان میں پچاس فیصد کیلئے انتہائی اہم اور اکتالیس فیصد کے نزدیک کسی درجہ تک اہم پایا گیا۔ روس، آذربائیجان اور قرغرستان میں روزداروں کی تعداد بڑی ہے۔ مصر، اردن اور مراکش میں دوتہائی سے زیادہ تعداد نے مزارات پر حاضر پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
آذربائیجان، وسطی ایشیا، جنوبی ایشیا اور مغربی افریقہ میں پینتیس سے پچاس فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ انہوں نے یا ان کے گھر والوں نے علاج کیلئے روحانی عامل سے رجوع کیا ہے۔
وسطی ایشیا، مشرقی یورپ، انڈونیشیا نیز مغربی اور وسطی افریقہ کے جواب دہندگان نے بتایا کہ بچپن میں ان کی پرورش ایک عام مسلمان کی حیثیت سے ہوئی نہ کہ کسی مخصوص فرقے سے وابستگی کے ساتھ۔
پروفیسر حاقان یفوذ کے مطابق وسطی ایشیائی مسلمانوں کیلئے جو نسبتاً تعداد میں کم اور دیگر مسلم ملکوں سے دور رہے ہیں فرقہ وارانہ وابستگی زیادہ اہم نہ تھی اور معاملات میں دینی اثر محدود تھا۔ اس کی ایک وجہ سات دھائیوں تک الحاد کی تعلیم و ترویج کے اثرات بھی ہیں۔ تاہم گزشتہ بیس برسوں میں نئی نسل کو نظریہ و عمل کے بارے میں زیادہ تعلیم حاصل ہوئی ہے اور دیگر مسلم ممالک تک آمد و رفت سے دینی شعور گہرا ہوا ہے۔
کمیونسٹ دور میں لوگ انفرادی معاملات پر اندرون خانہ زیادہ پابندی کرتے تھے اور اس کے اجتماعی اظہار میں احتیاط کرتے تھے۔ تاجکستان میں اٹھاسی فیصد جواب دہندگان نے بتایا کہ وہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، وسطی ایشیا اور مشرقی یورپ کے پچیس سے چالیس فیصد جواب دہندگان (خصوصاً البانیا اور کوسووو) نے بتایا کہ انہوں نے کبھی قرآن کی تلاوت نہیں کی۔
————-
SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
- CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
- WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Related
No comments:
Post a Comment