HINDU PARENTS ARE ANNOYED OF SUPREME COURT JUDGEMENT, BBC Urdu
COMMENTS
This is for Action Research Forum of public wisdom;
The legacy; cultural revival of British India. Traditionally it is so, one community was exploiting to another by different means and ways including kidnapping and snatching. The balance of relationship of communities was endangered and so rioting and militancy.
In Sindh it was more common due to class difference, and it is still there.
****
HINDU PARENTS ARE ANNOYED OF SUPREME COURT JUDGEMENT, BBC Urdu
ہندو والدین سپریم کورٹ سے بھی ناراض
آخری وقت اشاعت: بدھ 18 اپريل 2012 , 16:08 GMT 21:08 PST
آخری وقت اشاعت: بدھ 18 اپريل 2012 , 16:08 GMT 21:08 PST
پاکستان کے صوبہ سندھ کی تین ہندو لڑکیوں کے والدین نے الزام لگایا ہے کہ سپریم کورٹ میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک رکھا گیا اور سماعت کے بعد انہیں ان کی بیٹیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سندھ میں ہندو لڑکیوں کے اغوا اور ان کی جبراً شادی کے معاملے میں پاکستان ہندو کونسل کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
بدھ کو ضلع گھوٹکی کی رہائشی رنکل کماری، جیکب آباد کی رہائشی ڈاکٹر لتا اور آشا کماری کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا۔
اس موقع پر جب ایک خاتون پولیس اہلکار رنکل کماری کا ہاتھ پکڑ کر انہیں عدالت میں پیش کر رہی تھیں تو چیف جسٹس نے خاتون پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کا ہاتھ کیوں پکڑا ہے، یہ کوئی ملزم تھوڑی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تینوں لڑکیاں اب آزاد ہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں اس لیے پولیس انہیں مکمل تحفظ فراہم کرے۔
لڑکیوں کے والدین نے کمرۂ عدالت میں اپنی بیٹیوں سے ملنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی۔
اس کے بعد عدالت نے تینوں لڑکیوں کو رجسٹرار کے پاس اپنا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا۔
نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق جیکب آباد کے ڈی ایس پی غلام احمد اعوان نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ تینوں لڑکیوں نے اپنے بیان میں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔
اس موقع پر جب ایک خاتون پولیس اہلکار رنکل کماری کا ہاتھ پکڑ کر انہیں عدالت میں پیش کر رہی تھیں تو چیف جسٹس نے خاتون پولیس اہلکار سے کہا کہ ان کا ہاتھ کیوں پکڑا ہے، یہ کوئی ملزم تھوڑی ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تینوں لڑکیاں اب آزاد ہیں اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کر سکتی ہیں اس لیے پولیس انہیں مکمل تحفظ فراہم کرے۔
لڑکیوں کے والدین نے کمرۂ عدالت میں اپنی بیٹیوں سے ملنے کی کوشش کی لیکن پولیس نے انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی۔
اس کے بعد عدالت نے تینوں لڑکیوں کو رجسٹرار کے پاس اپنا بیان ریکارڈ کرنے کا حکم دیا۔
نامہ نگار حفیظ چاچڑ کے مطابق جیکب آباد کے ڈی ایس پی غلام احمد اعوان نے عدالت کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ تینوں لڑکیوں نے اپنے بیان میں اپنے شوہروں کے ساتھ جانے کی رضامندی ظاہر کی ہے۔
لڑکیوں کی مائیں اپنی بیٹیوں سے ملنے کے لیے بے تاب تھیں اور وہ عدالت کے اندر اور باہر روتی رہیں۔
رنکل کماری کی والدہ سلچھنی نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستان میں آخر ہندوں کے ساتھ اتنا ظلم و ستم کیوں ہو رہا ہے؟۔
’ہندؤں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں؟ ہماری نوجوان لڑکیوں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اپنی اولاد پیاری ہے تو ہم ہندؤں کو بھی پیاری ہے۔ اگر آپ ہندؤں کو اس ملک سے نکالنا چاہتے ہیں تو سیدھے طریقے سے کہیں، ہماری لڑکیوں کو اغوا کیوں کرتے ہیں؟‘
رنکل کماری کی والدہ سلچھنی نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستان میں آخر ہندوں کے ساتھ اتنا ظلم و ستم کیوں ہو رہا ہے؟۔
’ہندؤں کے ساتھ اتنا ظلم کیوں؟ ہماری نوجوان لڑکیوں کو اغواء کیا جا رہا ہے۔ اگر مسلمانوں کو اپنی اولاد پیاری ہے تو ہم ہندؤں کو بھی پیاری ہے۔ اگر آپ ہندؤں کو اس ملک سے نکالنا چاہتے ہیں تو سیدھے طریقے سے کہیں، ہماری لڑکیوں کو اغوا کیوں کرتے ہیں؟‘
لڑکیوں کے والدین نے عدالتی فیصلے پر مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ وہ بڑی امید لے کر سپریم کورٹ پہنچے تھے لیکن یہاں بھی ان کو انصاف نہیں ملا اور انہیں ان کی بیٹیوں سے ملنے نہیں دیا گیا۔
آشا کماری کے والد موہن نے بتایا کہ عدالت میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔
آشا کماری کے والد موہن نے بتایا کہ عدالت میں ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ عدالت نے ہمیں ایک منٹ کےلیے بھی ہماری بیٹی سے ملنے نہیں دیا جبکہ جن لوگوں نے ہماری بیٹی کو اغواء کیا اور زبردستی مسلمان کیا ان سے ملنے دیا گیا۔
ہندو کمیونٹی نے عدالتی فیصلے پر مایوسی ظاہر کی اور لڑکیوں کے والدین کے ہمراہ کچھ اقلیتی رہنماؤں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور شاہراہ دستور پر دھرنا دیا۔
ہندو کمیونٹی اور لڑکیوں کے والدین نے الزام لگایا کہ گھوٹکی سے حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو نے ان کی لڑکیوں کو اغواء کروایا اور انہیں زبردستی مسلمان بنا کر ان کی شادیاں کروا دیں تاہم میاں مٹھو نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
ہندو کمیونٹی اور لڑکیوں کے والدین نے الزام لگایا کہ گھوٹکی سے حکمراں جماعت پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی میاں مٹھو نے ان کی لڑکیوں کو اغواء کروایا اور انہیں زبردستی مسلمان بنا کر ان کی شادیاں کروا دیں تاہم میاں مٹھو نے بی بی سی بات چیت کرتے ہوئے ان الزامات کو مسترد کر دیا۔
————-
SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
- CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
- WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
No comments:
Post a Comment