LIKE FOR LIKE- UNDERACHIEVER OBAMA AND MANMOHAN- bbc urdu
LIKE FOR LIKE- UNDERACHIEVER OBAMA AND MANMOHAN
آؤٹ لک کا ٹائم میگزین کو ترکی بہ ترکی جواب
آخری وقت اشاعت: جمعـء 20 جولائ
2012 , 13:41 GMT 18:41 PST
آخری وقت اشاعت: جمعـء 20 جولائ
2012 , 13:41 GMT 18:41 PST
دو ہفتے پہلے امریکی جریدے ٹائم ميگزین کی سرِ ورق کی کہانی میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو ’انڈراچیور‘ یا اپنے اہداف مکمل طور پر حاصل نہ کر پانے والا رہنما قرار دیا تھا جس کے جواب میں اب بعد ایک بھارتی جریدے نے بالکل اسی طرح اپنے سرِ ورق کی کہانی میں امریکی باراک اوباما کے لیے یہی لفظ استعمال کیے ہیں۔
بھارت کے ایک مقتدر اور مقبول خبری جریدے ’ آؤٹ لک‘ نے اپنے اس ہفتے کے شمارے میں امریکی صدر باراک اوباما کی تصویر صفحہ اول پر شائع کی ہے انہیں ’انڈر اچیور‘ یا ایسا لیڈر قرار دی ہے جو اپنے وعدے پورے نہ کر سکا ہو یا اپنے اہداف حاصل نہ کر پایا ہو۔
ٹائم میگزین نے سولہ جولائی کو شائع ہونے والے شمارے میں لکھا تھا کہ ’انڈیا نیڈز ری بوٹ‘ یعنی بھارت کو نئی شروعات کی ضرورت ہے جیسے ایک کمپوٹر کو بند کر کے دوبارہ شروع کیا جاتا ہے بالکل اسی طرح ربوٹ۔
بالکل اسی طرز پر آؤٹ لک میگزین نے لکھا ہے ’امریکہ نیڈز ری بوٹ‘ یعنی امریکہ کو نئی شروعات کی ضرورت ہے۔
آؤٹ لک میگزین نے مزید لکھا ہے کہ باراک اوباما نے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا اور چار برس گزر جانے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی، کچھ نہیں ہوا اور اب اوباما کا جادو ختم ہوگیا ہے۔
آؤٹ لک میگزین کے مدیر اعلیٰ کرشنا پرساد نے کہا ہے کہ انہوں نے سرِ ورق کی یہ کہانی ٹائم میگزین کے جواب میں نہیں کی ہے۔اور نہ ہی اسے ’ جیسے کو تیسا‘ کہا جانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری منموہن سنگھ کی حمایت میں نہیں کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت دن سے کوشش کررہے تھے کہ باراک اوباما پر ایک سرِ ورق کی رپورٹ کریں۔ ہمارے میگزین کی توجہ تو باراک اوباما ہیں نہ کہ ٹائم کی سٹوری جو انہوں نے منموہن سنگھ کے بارے میں کی تھی۔
آؤٹ لک میگزین نے مزید لکھا ہے کہ باراک اوباما نے تبدیلی لانے کا وعدہ کیا تھا اور چار برس گزر جانے کے باوجود کوئی تبدیلی نہیں آئی، کچھ نہیں ہوا اور اب اوباما کا جادو ختم ہوگیا ہے۔
آؤٹ لک میگزین کے مدیر اعلیٰ کرشنا پرساد نے کہا ہے کہ انہوں نے سرِ ورق کی یہ کہانی ٹائم میگزین کے جواب میں نہیں کی ہے۔اور نہ ہی اسے ’ جیسے کو تیسا‘ کہا جانا چاہیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کوور سٹوری منموہن سنگھ کی حمایت میں نہیں کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ بہت دن سے کوشش کررہے تھے کہ باراک اوباما پر ایک سرِ ورق کی رپورٹ کریں۔ ہمارے میگزین کی توجہ تو باراک اوباما ہیں نہ کہ ٹائم کی سٹوری جو انہوں نے منموہن سنگھ کے بارے میں کی تھی۔
انہوں نے مزید کہا ’ہم امریکہ کے انتخابات کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینا چاہتے تھے اور اوباما کی گزشتہ چار برسوں کی کارکردگی کا پر تنقیدی نظر ڈالنا چاہتے ہیں، بس!’
کرشنا پرساد کا کہنا تھا ’اگر آپ باراک اوباما کو بھارتی نظریے اور غیر امریکی نظرریے سے دیکھیں گے تو آپ سمجھیں گے کہ جیسے منموہن سنگھ ناکام ثابت ہوئے ہیں اسی طرح سے باراک اوباما بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے آپ کو یہ بات اچھی لگے یا نہیں۔‘
انہوں نے ان الزامات کو تردید کی کہ انہوں نے اوباما کے بارے میں یہ کوور سٹوری حکومت کے دفاع میں کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ کچھ دن بات ہوسکتا ہے کہ ہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں اسی طرح کی سٹوری کریں۔ ہم بی بی سی کی طرح دنیا کو غیر جذباتی نظریے سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کہانیاں کرتے ہیں۔‘
ٹائم میگزین کی سٹوری کے بعد آؤٹ لک میگزین کی سٹوری فیس بک اور ٹوئٹر پر بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ آؤٹ لک نے ٹائم میگزین کو ’ کرارا جواب دیا ہے‘ وہیں بعض کا کہنا ہے کہ ’ یہ اچھے حسِ مزاح کی مثال ہے۔‘
وہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’بھارتی میڈیا اور خود بھارتی اپنے بارے میں کچھ برا سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔‘
کرشنا پرساد کا کہنا تھا ’اگر آپ باراک اوباما کو بھارتی نظریے اور غیر امریکی نظرریے سے دیکھیں گے تو آپ سمجھیں گے کہ جیسے منموہن سنگھ ناکام ثابت ہوئے ہیں اسی طرح سے باراک اوباما بھی ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ چاہے آپ کو یہ بات اچھی لگے یا نہیں۔‘
انہوں نے ان الزامات کو تردید کی کہ انہوں نے اوباما کے بارے میں یہ کوور سٹوری حکومت کے دفاع میں کی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ کچھ دن بات ہوسکتا ہے کہ ہم برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے بارے میں اسی طرح کی سٹوری کریں۔ ہم بی بی سی کی طرح دنیا کو غیر جذباتی نظریے سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں کہانیاں کرتے ہیں۔‘
ٹائم میگزین کی سٹوری کے بعد آؤٹ لک میگزین کی سٹوری فیس بک اور ٹوئٹر پر بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ بعض افراد کا کہنا ہے کہ آؤٹ لک نے ٹائم میگزین کو ’ کرارا جواب دیا ہے‘ وہیں بعض کا کہنا ہے کہ ’ یہ اچھے حسِ مزاح کی مثال ہے۔‘
وہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’بھارتی میڈیا اور خود بھارتی اپنے بارے میں کچھ برا سننا پسند نہیں کرتے ہیں۔‘
Advertisements
No comments:
Post a Comment