MIR TAQI MIR DAWN Urdu ON MIR TAQI MIR-The Dawn
میر تقی میر کی پینٹنگ۔
کراچی: اردو کے خدائے سخن، قادر الکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے دو سو دو برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔
میر دریا ہے، سنے شعر زبانی اس کی
اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی
اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی
میر تقی میر جن کا اصل نام محمد تقی تھا وہ 1723 میں آگرہ میں پیدا ہوئے تھے، صرف نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔
اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
درد آتا ہے جب نہیں آتا
درد آتا ہے جب نہیں آتا
والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا۔ میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے
دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے
جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے
بعدازاں شورش زمانہ سے میر کے مسائل دو چند ہوتے رہے تو گوشہ عافیت کی تلاش میں میر لکھنؤ پہنچ گئے اور وہیں سے صحیح معنوں میں آپ کی شاعری کو دوام ملا۔
اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعرکے مرز اسداللہ خاں غالب بھی معتقد تھے اور اسی لیے انہوں نے کچھ یوں فرمایا
غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں
ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ
ریختے کہ تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
اردو کے اس خدائے سخن نے 20 ستمبر 1810 میں لکھنو میں اس جہان سے کوچ کیا اور ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہو گئے۔
اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے
————–
SHARE WITH FRIENDS WISDOM POSTINGS:
- CAUSE AND EVENTS – SPATIAL And TEMPORAL RESPECTIVELY
- WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?
************
Advertisements
No comments:
Post a Comment