ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/06/29/bugti-said-the-balochistan-yet-to-start-%E2%80%93-haroon-rashid-leaving/
BUGTI SAID BALOCHISTAN WAR YET TO START – HAROON RASHID LEAVING
BUGTI SAID BALOCHISTAN WAR YET TO START – HAROON RASHID LEAVING
(June 29, 2011)
This is an Action Research Forum rendering services for promotion of knowledge.
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/06/110628_baloch_situation_ar.shtml
16:45 GMT 21:45 PST, 2011 منگل 28 جون
16:45 GMT 21:45 PST, 2011 منگل 28 جون
’ابھی جنگ شروع ہوئی نہیں، آپ جا رہے ہیں‘
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
ہارون رشید
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کوئٹہ
بی بی سی اردو کے نامہ نگار ہارون رشید چھ سال کے بعد دوبارہ صوبہ
بلو چستان پہنچے ہین- وہ اپنے مشاہدات کی ڈُاری کی صورت مین قلم بند
کرینگے – اس ڈاُری کی پہلی کڑی مندرجہ ذیل ہے-
بلو چستان پہنچے ہین- وہ اپنے مشاہدات کی ڈُاری کی صورت مین قلم بند
کرینگے – اس ڈاُری کی پہلی کڑی مندرجہ ذیل ہے-
’ارے جنگ کا ابھی آغاز ہوا نہیں اور آپ جنگی نامہ نگار (وار کارسپانڈنٹ) پہلے ہی روانہ ہوا چاہ رہے ہیں۔ اتنی جلدی بھی کیا ہے؟‘
یہ الفاظ تھے نواب اکبر خان بگٹی کے جو انہوں نے جنوری سال دو ہزار پانچ کی ایک رات عشائیے پر اپنے صحافی مہمانوں کو کہے جو کئی دن تک ڈیرہ بگٹی میں قیام کے بعد واپسیکے لیے اجازت طلب کر رہے تھے۔ ان نامہ نگاروں میں ایک میں بھی تھا-
وہ وقت تھا جب سوئی میں تعینات کراچی کی ایک ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ایک فوجی اہلکار کی مبینہ زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔ حکومت اور بگٹی قبیلے کے درمیان شدید تناؤ تھا اور اپنے آبائی علاقے ڈیرہ بگٹی میں محصور نواب اکبر بگٹی کے خلاف کسی فوجی کارروائی کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔
فوجی کارروائی تو کئی سال بعد ہوئی جس میں بلآخر نواب اکبر بگٹی ہلاک بھی ہوئے۔ انہیں شاید معلوم تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہونےوالا ہے۔ ہم باہر بیٹھے دیکھتے رہے اور حالات تیزی کے ساتھ دن بدن خراب سے خراب تر ہونے لگے۔
اس وقت بلوچستان پر مصائب کی بوندہ باندی ایک مرتبہ پھر باضابطہ موسلا دھار بارش بن چکی تھی۔
تاہم اس کی ابتداء کوئٹہ میں سال انیس سو ستانوے سے دو ہزار دو تک کی میری تعیناتی کے آخری ایام میں شروع ہوگئی تھی۔ بلوچ لیبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیمیں فعال ہونا شروع ہوئی تھیں۔
تاہم اس کی ابتداء کوئٹہ میں سال انیس سو ستانوے سے دو ہزار دو تک کی میری تعیناتی کے آخری ایام میں شروع ہوگئی تھی۔ بلوچ لیبریشن آرمی جیسی شدت پسند تنظیمیں فعال ہونا شروع ہوئی تھیں۔
وہ وقت شاید مصائب کی ایک مرتبہ پھر بوندہ باندی کے آغاز کا تھا۔
پہلے بلوچستان کی پسماندگی کی شکایات سنا کرتے تھے، اب یہ بات کوئی نہیں کرتا۔ اب آزادی کے نعرے سنے جا رہے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، اِغوا، بمباریوں اور فرقہ واریت کی موسلا دھار بارش نے بظاہر سیلاب کی افسوسناک صورت اختیار کر لی ہے۔ اس سے اب بھی نمٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے یا پانی سر سے گزر چکا ہے؟
پہلے بلوچستان کی پسماندگی کی شکایات سنا کرتے تھے، اب یہ بات کوئی نہیں کرتا۔ اب آزادی کے نعرے سنے جا رہے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، اِغوا، بمباریوں اور فرقہ واریت کی موسلا دھار بارش نے بظاہر سیلاب کی افسوسناک صورت اختیار کر لی ہے۔ اس سے اب بھی نمٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش ہو رہی ہے یا پانی سر سے گزر چکا ہے؟
اب چھ برس کے طویل وقفے کے بعد بلوچستان آنے کی دعوت ملی تو نہ نہیں کرسکا۔ دیکھیں آج کا بلوچستان کیسا ہے، کس سمت جا رہا ہے؟
Advertisements
No comments:
Post a Comment