ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/08/10/shinook-helicopter-destroyed/
CHINOOK HELICOPTER DESTROYED
CHINOOK HELICOPTER DESTROYED
(Aug 10, 2011)
(Aug 10, 2011)
شنوک کی تباہی
مارک اربن
سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر، نیوز نائٹ
مارک اربن
سفارتی اور دفاعی امور کے مدیر، نیوز نائٹ
امریکی فوج کے شنوک ہیلی کاپٹر کی تباہی جس میں اڑتیس افراد سوار تھے اس بات کی غماز ہے کہ افغانستان میں اتحادی فوج کس حد تک خصوصی دستوں کے چھاپوں پر انحصار کر رہی ہے۔
شنوک ہیلی کاپٹر کی تباہی کے اس واقعہ میں عملی طور پر امریکی سیل ٹیم چھ کے کمانڈو یونٹ کا ایک پورا سکواڈرن بھی ختم ہو گیا۔ اسی یونٹ کے کمانڈوز نے اس سال مئی میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔
فوج اور خاص طور پر چھاپہ مار دستوں کی کارروائیوں سے منسلک افراد اس بات پر حیران ہیں کہ آخر امریکی فوج کے خصوصی دستوں کو اس طرح کا نقصان پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھانا پڑا۔
فوج اور خاص طور پر چھاپہ مار دستوں کی کارروائیوں سے منسلک افراد اس بات پر حیران ہیں کہ آخر امریکی فوج کے خصوصی دستوں کو اس طرح کا نقصان پہلے کبھی کیوں نہیں اٹھانا پڑا۔
سنہ دو ہزار دس میں خصوصی تربیت یافتہ ان دستوں نے افغانستان میں تین سے چار ہزار ایسے آپریشن کیے ہوں گے جن میں زیادہ تر رات کے وقت اور انتہائی دشوار پہاڑی علاقوں میں دشمن کی شدید مزاحمت کے دوران کیے گئے۔
افغانستان میں تعینات نیٹو کی سربراہی میں انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنٹ فورس (ایسیف) کے حال ہی میں سبکدوش ہونے والے کمانڈر جنرل ڈیویڈ پیٹریئس نے ایک انٹرویو میں امریکی خصوصی دستوں کی خوب تعریف کی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ ان دستوں کا ذرائع ابلاغ میں ضرورت سے زیادہ ذکر ہو رہا ہے۔
اسامہ بن لادن کے خلاف کارروائی کے بعد ان دستوں کے ذکر سے قطع نظر یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ خصوصی دستوں کی کارروائیاں نیٹو کی فوجوں میں کمی کی حکمت عملی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ مرکزی کردار ادا کر رہی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔
یہ کارروائیاں مذاکرات پر مجبور کرنے میں بہت اہم ہیں اور جنرل پیٹریئس نے صوبے بگدیس کی مثال دی تھی جہاں پر تھوڑے ہی عرصے میں طالبان کے اہم کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ہزاروں کی تعداد میں مزاحمت کار اپنی وفاداریاں تبدیل کر کے حکومت کے ساتھ مل گئے تھے۔
وردگ صوبے جہاں گزشتہ ہفتے شنوک ہیلی کاپٹر مار گرایا گیا اور اس جیسی دوسری جگہوں پر ان کارروائیوں کا مقصد اتحادی فوجیوں میں واضح کمی ہونے اور کمان کی تبدیلی کے دوران فوجی دباؤ برقرار رکھنا ہے۔
یہ درست ہے کہ سیل ٹیم سکس کے بائیس ارکان کی ہلاکت سے ہونے والا نقصان اتحادی فوج کی کل تعداد کے مقابلے میں بہت معمولی ہے لیکن اس سے خصوصی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت بڑی حد تک متاثر ہو گی۔
سیل ٹیم سکس ڈیلٹا فورس، برطانوی ایس بی ایس اور دیگر ایس اے ایس دستے انتہائی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوجیوں پر مشتمل ہیں۔ کم لوگ اس بات کی اہمیت سے آگاہ ہوں گے کہ کارروائیوں کے دوران ان سکواڈز کی تعداد کیوں اتنی محدود رکھی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر سیل ٹیم سکس یا جسے ڈیوگرو بھی کہا جاتا ہے کے ارکان کی مجموعی تعداد تین سو ہے اور اس کے چار سکواڈ میں عام طور پر پینتیس افراد ہی کسی مشن پر بھیجے جاتے ہیں۔ ایس بی ایس جو اکثر ان کے ساتھ کارروائیوں میں شامل ہوتے ہیں وہ بھی اتنی ہی تعداد میں چھاپہ مار بھیجتی ہے۔
ہر سکواڈ کے ساتھ کچھ معاون یا ’بیک اپ‘ سٹاف بھی ہوتا ہے۔ اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے تیس کمانڈوز کو بھیجا گیا تھا اور عام طور پر شب خون مارنے کی کارروائیوں میں استعمال کیے جانے والے دستوں میں فوجیوں کی تعداد اتنی ہی ہوتی ہے۔ ضرورت پڑنے پر مدد کے لیے سرعت الحرکت فورس کے فوجیوں کو بھیجا جاتا ہے جو ہدف بنائی جانے والی عمارتوں کا محاصرہ کرنے اور لڑائی میں شدت کی صورت میں مدد بھی فراہم کرتی ہیں۔
امریکی فوج کے فوری ردعمل کے دستے خصوصی فوجی دستوں کے مقابلے میں کم تربیت یافتہ ہوتے ہیں اور عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کی حکمت عملی یہی رہی ہے کہ خصوصی آپریشنز کے دوران سرعت الحرکت فوج کے ارکان شنوک میں سوار ہوتے ہیں جبکہ خصوصی فوجی دستے دو بلیک ہاک ہیلی کاپٹروں میں سوار ہو کر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اس طرح ٹیئر ون کے ارکان نسبتاً زیادہ محفوظ چھوٹے ہیلی کاپٹراستعمال کرتے ہیں جبکہ سرعت الحرکت فوج کے ارکان اہداف سے ذرا فاصلے پر دو بڑے اور زیادہ آواز پیدا کرنے والے شنوک ہیلی کاپٹروں پر سوار ہوتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کچھ وجوہات کی بنا پر اس انداز کو چھوڑ کر ٹیئر ون کے ارکان کو شنوک پر سوار کرا دیا گیا جبکہ سرعت الحرکت فوج کے ارکان بلیک ہاک میں سوار ہو گئے۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment