ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/05/from-taliban-to-war-on-terror-pakistan/
FROM TALIBAN TO WAR ON TERROR PAKISTAN
FROM TALIBAN TO WAR ON TERROR PAKISTAN
طالبان کی حمایت سے ’وار آن ٹیرر‘ تک
00:59 GMT 05:59 PST 2011, آخری وقت اشاعت: پير 5 ستمبر
حفیظ چاچڑ
بی بی سی، اسلام آبا
00:59 GMT 05:59 PST 2011, آخری وقت اشاعت: پير 5 ستمبر
حفیظ چاچڑ
بی بی سی، اسلام آبا
امریکی شہر نیوریارک میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کو ہونے والے دہشت گرد حملوں کو دس سال مکمل ہو رہے ہیں اور اس دوران پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے ہیں۔
ان حملوں کے ردعمل میں جب امریکہ نے افغانستان میں موجود ’شدت پسندوں‘ کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان اور دوسرے شدت پسندوں کی حمایت ترک کر کے دہشت گردی کے خلاف کے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے۔
اس امریکی مطالبے نے پاکستانی حکومت کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے روابط تھے۔
کلِک طالبان کی حمایت سے ’وار آن ٹیرر‘ تک: سنیے
تاہم پاکستان کے اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر راضی ہوگئے اور بنا کسی شرط کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔
اس فیصلے کے بارے میں ایک امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ نہ دیا تو امریکہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔
سی بی ایس کو دیے گئے اس انٹرویو میں صدر مشرف نے کہا تھا کہ یہ امریکی دھمکی اس وقت کے نائب سیکرٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے ان کے انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے توسط سے ان تک پہنچائی۔ ’انٹیلیجس ڈائریکٹر نے مجھے کہا کہ (آرمیٹیج) کہہ رہے ہیں ہے کہ بمباری کے لیے تیار ہوجائیں۔ واپس پتھر کے دور (اسٹون ایج) میں جانے کے لیے تیار ہوجائیں‘۔
تاہم بعدازاں خود رچرڈ آرمیٹیج کی جانب سے اس بات کی تردید کر دی گئی۔
دہشتگردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ چاہے پاکستان نے کسی دباؤ میں کیا یا اپنی مرضی سے یہ امریکہ اور طالبان سے تعلقات کے حوالے سے ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔
نامور تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یوں طالبان کی حمایت ختم کر دینے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی شکل تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ’دو ہزار ایک تک پاکستان طالبان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اور ستمبر دو ہزار ایک کے بعد اس نے طالبان کا ساتھ چھوڑ کر امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف نئی بین الاقوامی جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اس کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر گہرا اثر پڑا‘۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو کیا پاکستان پر اس کے منفی اثرات نہ پڑتے۔ اگر افغانستان میں جنگ چل رہی تھی تو اس کا اثر پاکستان پر ضرور ہونا تھا‘۔
حسن عسکری کے مطابق گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں سے پہلے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو تنہا کر دیاگیا تھا اور اسے ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں ایک اہم پارٹنر بننے سے پاکستان کو یہ فائدہ ہوا کہ بین الاقوامی برادری میں اس کے تمام گناہ معاف کر دیے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی عزت ہونے لگی۔
ان کا کہنا ہے کہ’دو ہزار میں پاکستان بین الاقوامی طور پر تنہا ہو گیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم رکن بننے سے پاکستان کو بین الاقوامی نظام میں داخل ہونے کا موقع ملا اور کافی حمایت حاصل ہوئی‘۔
تاہم سبھی لوگ اس خیال سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں شمولیت سے پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر تو کافی عزت کمائی اور اسے تمام بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہوئی لیکن اندرونی سطح پر پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکہ کے مطالبات کو پورا کرتے کرتے پاکستان گزشتہ دس برس میں ایک سکیورٹی سٹیٹ بنا چکا ہے اور یہ اس کی خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔
تجزیہ نگار پروفیسر شمیم اختر کہتے ہیں کہ دو ہزار ایک کے بعد خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور وہ آج بھی اس عفریت کا سامنا کر رہا ہے اور اسی وجہ سے ملک پچھلے کئی سالوں سے سکیورٹی سٹیٹ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ امریکہ نواز رہی ہے اور اسی کے دہائی سے لے کر آج تک پاکستان کی امریکہ نوازی میں ایک استحکام اور یکسانیت رہی ہے۔’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہت بڑی خامی ہے جس کی وجہ سے ملک اندرونی طور پر کافی کمزور ہوگیا اور پچھلے دس برس میں امن و امان کی سنگین صورتحال سے دوچار رہا جس میں عام افراد کو کافی نقصان ہوا‘۔
پروفیسر شمیم کے مطابق ’دو ہزار ایک سے قبل پاکستان کی امن و امان کی صورتحال کسی حد تک معمول کے مطابق تھی۔ نہ بم دھماکے اس شدت کے ساتھ ہوئے، نہ کوئی دہشتگردی کے واقعات ہوئے لیکن دو ہزار ایک کے بعد سے پاکستان ایک جنگی صورتحال کا شکار ہو گیا‘۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف آج بھی امریکہ کو افغان طالبان حکومت پر ترجیح دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر اپنے ایک پیغام میں انہوں نے لکھا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا بالکل صحیح اور موزوں فیصلہ کیا تھا کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کے بعد سب کو یقین تھا کہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرے گا۔
انہوں نے کہا ’اس وقت سوال یہ تھا کہ امریکی افغانستان پر کس طرف سے حملہ کر سکتا ہے۔ وہ روس، وسطی ایشیاء یا ایران کی طرف سے تو حملہ نہیں کر سکتا تھا تو ایک ہی راستہ تھا کہ وہ مشرق یا جنوب سے حملہ کرے اور اس صورت میں ہماری سلامتی کی خلاف ورزی ہوتی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہوتا کہ امریکہ بھارت کی مدد کے ساتھ پاکستان کے راستے افغانستان پر حملہ کرتا اور یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔
ان حملوں کے ردعمل میں جب امریکہ نے افغانستان میں موجود ’شدت پسندوں‘ کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا تو اس نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان اور دوسرے شدت پسندوں کی حمایت ترک کر کے دہشت گردی کے خلاف کے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دے۔
اس امریکی مطالبے نے پاکستانی حکومت کو ایک بڑی مشکل میں ڈال دیا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اچھے روابط تھے۔
کلِک طالبان کی حمایت سے ’وار آن ٹیرر‘ تک: سنیے
تاہم پاکستان کے اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے پر راضی ہوگئے اور بنا کسی شرط کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے۔
اس فیصلے کے بارے میں ایک امریکی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انہوں نے بتایا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر ہم نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ نہ دیا تو امریکہ پاکستان پر حملہ کر سکتا ہے۔
سی بی ایس کو دیے گئے اس انٹرویو میں صدر مشرف نے کہا تھا کہ یہ امریکی دھمکی اس وقت کے نائب سیکرٹری خارجہ رچرڈ آرمیٹیج نے ان کے انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے توسط سے ان تک پہنچائی۔ ’انٹیلیجس ڈائریکٹر نے مجھے کہا کہ (آرمیٹیج) کہہ رہے ہیں ہے کہ بمباری کے لیے تیار ہوجائیں۔ واپس پتھر کے دور (اسٹون ایج) میں جانے کے لیے تیار ہوجائیں‘۔
تاہم بعدازاں خود رچرڈ آرمیٹیج کی جانب سے اس بات کی تردید کر دی گئی۔
دہشتگردی کے خلاف اس عالمی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ چاہے پاکستان نے کسی دباؤ میں کیا یا اپنی مرضی سے یہ امریکہ اور طالبان سے تعلقات کے حوالے سے ملک کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی تبدیلی تھی۔
نامور تجزیہ نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ یوں طالبان کی حمایت ختم کر دینے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی شکل تبدیل ہوگئی۔ انہوں نے کہا کہ ’دو ہزار ایک تک پاکستان طالبان کا سب سے بڑا حمایتی تھا اور ستمبر دو ہزار ایک کے بعد اس نے طالبان کا ساتھ چھوڑ کر امریکہ کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف نئی بین الاقوامی جدوجہد میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور اس کا پاکستان کی خارجہ پالیسی پر گہرا اثر پڑا‘۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’اگر پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو کیا پاکستان پر اس کے منفی اثرات نہ پڑتے۔ اگر افغانستان میں جنگ چل رہی تھی تو اس کا اثر پاکستان پر ضرور ہونا تھا‘۔
حسن عسکری کے مطابق گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں سے پہلے بین الاقوامی برادری میں پاکستان کو تنہا کر دیاگیا تھا اور اسے ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں ایک اہم پارٹنر بننے سے پاکستان کو یہ فائدہ ہوا کہ بین الاقوامی برادری میں اس کے تمام گناہ معاف کر دیے اور بین الاقوامی سطح پر اس کی عزت ہونے لگی۔
ان کا کہنا ہے کہ’دو ہزار میں پاکستان بین الاقوامی طور پر تنہا ہو گیا تھا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم رکن بننے سے پاکستان کو بین الاقوامی نظام میں داخل ہونے کا موقع ملا اور کافی حمایت حاصل ہوئی‘۔
تاہم سبھی لوگ اس خیال سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں شمولیت سے پاکستان نے بین الاقوامی سطح پر تو کافی عزت کمائی اور اسے تمام بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہوئی لیکن اندرونی سطح پر پاکستان کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
تجزیہ نگاروں کے خیال میں امریکہ کے مطالبات کو پورا کرتے کرتے پاکستان گزشتہ دس برس میں ایک سکیورٹی سٹیٹ بنا چکا ہے اور یہ اس کی خارجہ پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔
تجزیہ نگار پروفیسر شمیم اختر کہتے ہیں کہ دو ہزار ایک کے بعد خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور وہ آج بھی اس عفریت کا سامنا کر رہا ہے اور اسی وجہ سے ملک پچھلے کئی سالوں سے سکیورٹی سٹیٹ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ امریکہ نواز رہی ہے اور اسی کے دہائی سے لے کر آج تک پاکستان کی امریکہ نوازی میں ایک استحکام اور یکسانیت رہی ہے۔’پاکستان کی خارجہ پالیسی میں یہ بہت بڑی خامی ہے جس کی وجہ سے ملک اندرونی طور پر کافی کمزور ہوگیا اور پچھلے دس برس میں امن و امان کی سنگین صورتحال سے دوچار رہا جس میں عام افراد کو کافی نقصان ہوا‘۔
پروفیسر شمیم کے مطابق ’دو ہزار ایک سے قبل پاکستان کی امن و امان کی صورتحال کسی حد تک معمول کے مطابق تھی۔ نہ بم دھماکے اس شدت کے ساتھ ہوئے، نہ کوئی دہشتگردی کے واقعات ہوئے لیکن دو ہزار ایک کے بعد سے پاکستان ایک جنگی صورتحال کا شکار ہو گیا‘۔
پاکستان کے سابق صدر جنرل پرویز مشرف آج بھی امریکہ کو افغان طالبان حکومت پر ترجیح دینے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ فیس بک پر اپنے ایک پیغام میں انہوں نے لکھا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا بالکل صحیح اور موزوں فیصلہ کیا تھا کیونکہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کے بعد سب کو یقین تھا کہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرے گا۔
انہوں نے کہا ’اس وقت سوال یہ تھا کہ امریکی افغانستان پر کس طرف سے حملہ کر سکتا ہے۔ وہ روس، وسطی ایشیاء یا ایران کی طرف سے تو حملہ نہیں کر سکتا تھا تو ایک ہی راستہ تھا کہ وہ مشرق یا جنوب سے حملہ کرے اور اس صورت میں ہماری سلامتی کی خلاف ورزی ہوتی‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا یہ پاکستان کے مفاد میں ہوتا کہ امریکہ بھارت کی مدد کے ساتھ پاکستان کے راستے افغانستان پر حملہ کرتا اور یہ پاکستان کے مفاد میں نہیں تھا۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment