Wednesday, 6 June 2018

HITLER 2nd IN COMMAND GRAVE DIG OUT, BODY TRASH GUTTED, ASHES INTO SEA, CIVILIZATION IRONY (July 22, 2011)


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/07/22/hitler-2nd-in-command-grave-dig-out-body-trash-gutted-ashes-into-sea-civilization-irony/

HITLER 2nd IN COMMAND GRAVE DIG OUT, BODY TRASH GUTTED, ASHES INTO SEA, CIVILIZATION IRONY
(July 22, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/07/110722_hitler_hess_germany_ar.shtml
06:22 GMT 11:22 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعـء 22 جولائ
ہٹلر کے نائب کی قبر کشائی، باقیات نذرآتش
جرمنی میں ایڈولف ہٹلر کے نائب رُڈولف ہیس کی قبر کشائی کے بعد ان کی باقیات کو نذرِ آتش کیا گیا اور اب راکھ کو سمندر برد کردیا جائے گا۔
ان کی قبر کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کا اقدام اس لیے کیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ نیو نازی ان کی قبر کو مزار کی صورت نہ دے دیں۔
جنوبی جرمنی میں واقع علاقے وُنسیدل میں بدھ کی صبح ان کی قبر کشا کر کے ان کی باقیات کو نکالا گیا اور بعد میں انہیں جلا دیا گیا۔ ان کی باقیات کی راکھ کو اب سمندر میں بہا دیا جائے گا۔
انہیں سنہ انیس سو اکتالیس میں برطانیہ جاتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں انہیں عمر قید کی سزا دی گئی تھی۔ انہوں نے سنہ انیس سو ستاسی میں خود کو برلن کی جیل میں ترانوے برس کی عمر میں ہلاک کر لیا تھا۔
انہوں نے اپنی وصیت میں کہا تھا کہ انہیں ونسیدل کے قصبے باواریا میں سپردِ خاک کیا جائے جہاں ان کے خاندان کا مکان ہے اور جہاں ان کے والدین دفن ہیں۔
مقامی لوتھیرن چرچ باواریا کے قبرستان کی نگرانی کرتا ہے اور اسی نے رڈولف ہیس کو دفنانے کی اجازت دی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ مرنے والے کی خواہشات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم جب سے دائیں بازو کے گروہ کے اراکین نے قبر پر آنا جانا شروع کیا تو چرچ اور مقامی افراد کی تشویش میں اضافہ ہوتا گیا۔
ہر سال رڈولف ہیس کی برسی پر نیو نازی کے اراکین قبرستان میں مارچ کرنے کی کوشش کرتے، قبر کو سلامی دیتے اور پھولوں کی چادریں چڑھاتے۔
چرچ کونسل کے ایک رکن ہنس جرگن بچتا نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا ’پورا شہر بند تھا اور کھلبلی مچی تھی اور پولیس بھی بڑی تعداد میں موجود تھی۔ ہم یہاں قبرستان میں اس طرح کے حالات کا ہمیشہ مقابلہ نہیں کرسکتے۔‘
سنہ دو ہزار پانچ میں اس طرح کے اجتماعات پر عدالتی پابندی کا رڈولف ہیس کی قبر پر ہونے والے اجتماع پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا تھا۔ لہذٰا چرچ نے اس خاندان کو دی گئی اجازت ختم کردی۔
رڈولف ہیس کی پوتی نے اس فیصلے پر اعتراض کیا اور عدالت میں مقدمہ دائر کردیا لیکن پادریوں کی علاقائی کونسل نے اس مقدمہ میں اپنا مؤقف پیش کرتے ہوئے عدالت سے درخواست کی کہ وہ اسے قبر کشائی کی اجازت دے۔
ونسیدل کے نائب میئر رولینڈ شوفل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک آپریشن کے دوران یادگار کو منہدم کردیا گیا ہے۔
قبرستان کے ایڈمنسٹریٹر آندرے فابیل نے اے پی کو بتایا ’قبر اب خالی ہے۔ ہڈیاں لے جائی جا چکی ہیں۔‘
علاقے کی ایک رہائشی مسز کوئنگ نے کہا ’اس کے جانے کے بعد شاید اب یہاں سکون ہو جائے گا۔ اب شاید وہ لوگ بھی نہیں آئیں گے اور یہ ہی ونسیدل چاہتا تھا۔‘
میونخ اور باواریاں بالا میں یہودی برادری کی سربراہ شارلیٹ نوبلوخ نے قبرکشائی کا خیر مقدم کیا ہے۔
انہوں نے کہا ’کئی دہائیوں سے یہ قصبہ اور اس کے باسی دائیں بازو کے شدت پسندوں سے خوفزدہ تھے۔‘
رڈولف ہیس، ہٹلر کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک تھے۔ تاہم انہوں نے سنہ انیس سو اکتالیس میں اکیلے ہی سکاٹ لینڈ جانے کی کوشش کی جہاں ان کے جہاز کو ہنگامی طور سے اترنا پڑا۔ انہیں برطانیہ میں قید کردیا گیا۔
بعد میں ان پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم جیسے سنگین مقدمات قائم کیے گئے تاہم عدالت نے انہیں ان الزامات سے بری کردیا لیکن امن کے خلاف جرائم میں انہیں سزائے عمر قید سنائی گئی۔ رڈولف ہیس نے چالیس سال برلن کی جیل میں گزارے۔
Advertisements 

No comments:

Post a Comment