Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-40439872
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہندو طلبہ کی مشکلات کیا ہیں؟
'مسلمانوں کے لیے رمضان کا مہینہ بہت مقدس ہوتا ہے لیکن میرے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں یہ مہینہ بہت ہی مشکل رہا۔ اس بار یہ 28 مئی سے 25 جون تک چلا اور میں انتظار کرتی رہی کہ کب ختم ہو گا۔'
اے ایم یو سے پی ایچ ڈی کرنے والی وندتا یادو (تبدیل شدہ نام) کے لیے کیمپس میں رمضان گزارنے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔
وندتا نے کہا کہ رمضان شروع ہوتے ہی اچانک کیمپس کے اندر کی ساری کینٹینیں بند ہو گئیں۔ انھوں نے کہا کہ یہ شام میں افطار کے وقت ہی کھلتی تھیں، ہاسٹل میں بھی یہی صورت حال رہتی۔
'رمضان میں کیمپس کے اندر اس قدر مذہبی ماحول رہتا ہے کہ ذہن میں ایک قسم کا ڈر رہتا ہے۔ اگر کوئی مسلم ساتھی روزہ دار ہو تو اس کے سامنے کچھ کھانے پینے میں بھی عجیب لگتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کہیں کوئی اعتراض نہ کر دے۔'
وندتا کو کیمپس کے اندر ہاسٹل نہیں ملا۔ وہ علی گڑھ کے احمد نگر میں رہتی ہیں۔ اس دوران وہ اکثر گھر سے بغیر کھائے نکلتی تھیں اور کیمپس میں جا کر کھانا کھاتی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ کیمپس سے باہر بھی رمضان کے مہینے میں شام سے پہلے کھانے پینے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔
انھیں کئی بار ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی مذہبی یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں جہاں ایک خاص مذہب کے طور طریقوں کو اپنانا مجبوری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ واش روم میں لوٹا ہوتا ہے جس کی انھیں کبھی عادت نہیں رہی۔
یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن میں پی ایچ ڈی کرنے والے اسد فیصل فاروقی وندتا کے اس موقف سے متفق نہیں ہیں۔
فیصل کہتے ہیں: 'یہاں جو بھی چیزیں ہیں وہ یہاں کی روایت کا حصہ ہے۔ لوگ اسے خوشی سے قبول کرتے ہیں اور کسی پر دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔'
انھوں نے کہا: 'رمضان کے مہینے میں جنھیں کھانا ہوتا ہے ان کے لیے ڈائننگ ہال میں کھانے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ لوگوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس یونیورسٹی کو اقلیتی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہے۔ ہم اس کے معیار کو برقرار رکھنے کے لیے سپریم کورٹ میں جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔'
جبيں آفاق نے 2000 سے 2006 تک علی گڑھ میں کامرس کی تعلیم حاصل کی۔ اب وہ صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
ان کا کہنا ہے: 'کیمپس میں ایک مذہب کا غلبہ رہتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں صرف ہندوؤں کو ہی نہیں بلکہ ان مسلمانوں کو بھی مشکل ہوتی ہے جو روزہ نہیں رکھتے۔ آپ کو اس دوران کچھ کھانا ہے تو چھپ کر کھانا ہوتا ہے۔ کیمپس کی ساری کینٹینیں بند ہوتی ہیں۔ کیمپس کے باہر بھی ڈھابوں میں پردے لگا دیے جاتے ہیں۔ ایسے میں کسی لڑکی کو کھانا کھانے میں کافی مشکل ہوتی ہے۔'
سنجیو جیسوال (بدلا ہوا نام) نے علی گڑھ ہی سے ہی گریجویشن، ماسٹرز اور ایم فل کیا ہے۔ اب وہ یہاں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔
سنجیو کا کہنا ہے: 'جمعے کو ہاف ٹائم کے بعد جممے کی نماز کے لیے چھٹی دے دی جاتی ہے۔ اس دوران بھی ساری کینٹینیں بند ہوتی ہیں۔'
سنجیو نے بتایا: 'دوسرے کیمپسوں میں آپ مذہب پر تنقید کر سکتے ہیں۔ لیکن علی گڑھ میں آپ ایسا کرنے سے پہلے دس بار سوچیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی یونیورسٹی میں نہیں بلکہ کسی مذہبی ادارے میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ لوگ یہاں لائبریری میں بھی نماز ادا کرتے ہیں۔ اگر کوئی نماز ادا کر رہا ہے اور آپ وہاں ہیں تو زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے۔'
وندتا نے اسی سال مئی کا ایک واقعہ بتایا: 'یونیورسٹی کے کینیڈی ہال میں اداکار نصیر الدین شاہ آئے تھے۔ کینیڈی ہال میں لڑکیوں کو سكارف اور مردوں کے لیے ٹوپی پہننے کی روایت ہے۔ جب نصیر الدین نے بولنا شروع کیا تو لوگوں نے ٹوپی، ٹوپی کی آواز لگائیں۔ نصیر کچھ دیر تک چپ رہے۔ جب آواز ختم ہوئی تو نصیر نے پوچھا: ’ہو گیا نا؟ انھوں نے ٹوپی نہیں پہنی اور بولنا شروع کیا۔'
وندتا نے بتایا کہ نصیر نے ایسا کیا تو انھیں اچھا لگا کہ کوئی تو ہے جو نہ بھی کہہ سکتا ہے۔ وندتا کا خیال ہے کہ کینیڈی ہال میں نصیر کا انکار کرنا آسان ہے لیکن ان کے لیے ایسا کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے۔
لیکن علی گڑھ یونیورسٹی کے پی آر او عمر خلیل پیرزادہ ایسے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی میں 25 فیصد سے زیادہ غیر مسلمان طلبہ پڑھتے ہیں اور ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔
انھوں نے کہا: 'رمضان کے مہینے میں ہاسٹل میں رہنے والے ان طلبہ سے درخواستیں طلب کی جاتی ہیں جو کھانا چاہتے ہیں۔ اس میں وہ مسلم بھی شامل ہوتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے یا پھر وہ غیر مسلم ہیں. ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جو کینٹین چلاتے ہیں وہ بھی روزہ رکھتے ہیں ایسے میں بیشتر لوگ کینٹین دن میں بند کر دیتے ہیں۔ لیکن کیمپس میں کھانے کی کوئی مشکل نہیں ہوتی ہے کیونکہ ہم اس کا الگ سے انتظام کرتے ہیں۔'
پیرزادہ نے کہا کہ کیمپس کا ماحول انڈیا کی مشترکہ ثقافت کا حصہ ہے اور اسی کے مطابق ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہاں کسی پر کسی بھی طرح کا دباؤ نہیں ڈالا جاتا۔
وندتا نے یہ بات ضرور تسلیم کی کہ یہاں کے کیمپس میں لڑکیاں خود کو کافی محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی نہ تو ان پر جملے بازی کرتا ہے اور نہ ہی بدتمیزی کر سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment