Tuesday, 5 June 2018

WHAT AMERICA COULDN’T ACCOMPLISH? Posted on July 17, 2011


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/07/17/what-america-couldn%E2%80%99t-accomplish/


WHAT AMERICA COULDN’T ACCOMPLISH?

WHAT AMERICA COULDN’T ACCOMPLISH?
(July 16, 2011)
16:00 GMT 21:00 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: ہفتہ 16 جولائ
خواہش جو پوری نہ ہوئی
گورڈن کوریرا
سکیورٹی امور کے نامہ نگار بی بی سی لندن
امریکہ میں گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک کے بعد صدر جارج ڈبلیو بش نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ ’اسامہ بن لادن زندہ اور مردہ حالت میں مطلوب ہے۔‘
لیکن اسامہ کی پندرہ برس تک جاری رہنے والی تلاش کے دوران ایک طویل عرصے تک واشنگٹن میں یہ سوال کہ اسامہ کو زندہ گرفتار کرنا ہے یا مردہ ایک وجہ تنازع ہی بنی رہی۔
گیارہ ستمبر سنہ دو ہزار ایک سے قبل تقریباً پانچ برس تک اسامہ زندہ یا مردہ کا سوال جواب مبہم رہا اور ایبٹ آباد میں اس سال مئی میں اسامہ کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے۔ متعلقہ حکام میں اب اس بارے میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ کون اس ابہام کا ذمہ دار تھا اور کیوں اسامہ کو اس سے پہلے ہلاک نہیں کیا جا سکا۔
اس بحث میں تنازع کی وجہ یہ سوال ہے کہ کیا سنہ انیس سو نوے کی دہائی میں وائٹ ہاؤس کی طرف سے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی واضح ہدایت تھیں۔
سنہ انیس سو ستر کی دہائی میں سی آئی اے کو وسیع پیمانے پر مذمتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا جب یہ منظر عام پر آیا تھا کہ سی آئی اے نے غیر ملکی رہنماوں کو جن میں کا نگو کے پیٹرس لوممبا اور کیوبا کے فیدل کاسترو شامل تھے کو قتل کروانے کی سازشیں کی تھیں۔
سنہ انیس سو نوے کے عشرے کے آخری حصہ میں امریکی حکومت نے امریکی فوج کو کسی جگہ اسامہ کی موجودگی کے بارے میں علم ہونے کی صورت میں پوری قوت استعمال کرنے کا اختیار دیا اور ساتھ ہی اس طرح کی کارروائی میں شہری ہلاکتوں کو کم سے کم رکھنے کی تاقید کی۔
یارہ ستمبر کے حملوں کے بعد اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا امریکہ عزم اور پختہ ہو گیا۔
رچرڈ کلارک کا کہنا تھا کہ ’حقیقت یہ تھی کہ وائٹ ہاؤس، صدر، قومی سلامتی کے مشیر اور میں بذات خود پینٹاگن سے یہ کہہ رہے تھے یہ کر گزرو۔‘
پینٹاگن اور خاص طور پر اعلٰی ترین فوجی رہنماؤں کا کہنا تھا کہ نہیں یہ کرنا بہت خطرناک ہے اور ان کے پاس ایسی کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔
یہ ہی فوجی حکام دوسری طرف فوجیوں سے یہ کہتے تھے کہ وائٹ ہاؤس انھیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
جنرل رچرڈ مائرز کا جو اسوقت وائس چیئرمین تھے اور گیارہ ستمبر کے بعد جائنٹ چیف آف سٹاف کے چیئرمین بنے کہنا تھا کہ پینٹاگن کبھی خطرے سے نہیں ڈرتا تھا لیکن سرد جنگ کے بعد اس طرح کی کارروائی کرنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا ’ہمیں لچکادار، پھرتیلا، سبک، اور تیز ہونے کی ضرورت تھی جو ہم اس وقت نہیں تھے سنہ دو ہزار ایک میں اور یقینی طور پر اس سے چار پانچ سال قبل جب ہم جانتے تھے کہ بن لادن کہاں ہیں، جو کہ ہم اب ہیں۔‘
امریکہ نے پاکستان کے ساحل کے قریب اپنی دو ایٹمی آبدوزوں کو تعینات کر رکھا تھا تاکہ اسامہ بن لادن کو کروز میزائیلوں سے نشانہ بنایا جا سکے۔
سی آئی اے میں اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے والے یونٹ کے سربراہ مائیکل شوئر کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کئی مرتبہ اسامہ کے بارے میں یقینی اطلاع تھی اور انھیں کروز میزائل سے ہلاک کیا جا سکتا تھا۔
سنہ انیس سو اٹھانوے میں کرسمس سے ایک اتوار قبل بن لادن قندہار میں گورنر کے محل میں قیام پذیر تھے۔ مائیکل شوئر کا کہنا تھا کہ ’ہم جانتے تھے کہ اسامہ وہاں موجود ہیں کیونکہ ہم نے انھیں وہاں جاتے دیکھا تھا اور ہمیں پتہ تھا کہ وہ محل کے کسی حصے میں کس کمرے میں موجود ہیں۔‘
لیکن صدر اور ان کے مشیران نے فیصلہ کیا کہ اگر محل پر میزائیل داغے گئے تو اس کے قریب تین سو میٹر کے فاصلے پر واقع مسجد بھی نشانہ بن سکتی ہے۔
اسی خیال سے یہ کارروائی کرنے کا ارادہ ترک کر دیا گیا۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اطلاع اتنی مصدقہ نہیں تھی۔ رچرڈ کلارک کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ یہ تھا کہ سی آئی اے کو ہمشیہ یہ علم تھا کہ اسامہ کل کہاں تھے لیکن یہ علم نہیں ہوتا تھا کہ کل کہاں ہونگے۔‘
گیارہ ستمبر دو ہزار ایک نے ایک مرتبہ پھر امریکہ میں بساط پلٹ دی۔ صدر بش نے ایک خفیہ دستاویز پر دستخط کیے جس میں القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کی تحریری اجازت یا اختیار دیا گیا۔
سی آئی اے کے انسداد دہشت گردی مرکز کے سخت مزاج سربراہ کوفر بلیک صدر کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے گئے۔
بلیک نے گیری شورن کو افغانستان میں سی آئی اے کی ٹیم کی سربراہی کرنے کے لیے ایک غیرمعمولی حکم دے کر روانہ کیا۔
شیرون نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ بلیک نے انھیں حکم دیا ’مجھے اسامہ کا سر چاہیے برف سے بھرے ایک باکس میں جسے میں صدر کے سامنے پیش کر سکوں۔!
بلیک کا اب کہنا ہےکہ ان کی یہ خواہش اسامہ کے سر کو ٹرافی کے طور پر پیش کرنے کے لیے نہیں تھی بلکہ ان کی شناخت یقینی بنانے کے لیے۔ ’اپنی کامیابی ثابت کرنے کے لیے ٹھوس ثبوت چاہیے تھا اور یہ اسی طرح ممکن تھا۔‘
سی آئی اے میں تذذب کی کیفیت ایبٹ آباد میں کارروائی کے وقت تک پائی جاتی تھی۔
امریکہ کے اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر نے مجھے بتایا کہ یہ کارروائی زندہ یا مردہ ہر دو حالتوں میں اسامہ کو گرفتار کرنے کا مقصد ذہن میں رکھ کر بنائی گئی تھی۔
انھوں نے کہا ’اگر ہم اسامہ کو زندہ حالت میں گرفتار کرنے کے قابل ہو جاتے تو یہ قتل کی کارروائی نہیں ہوتی اور ایسا کیا جا سکتا تھا۔‘
لیکن اس اڑتیس منٹ طویل کارروائی میں کیا ہوا اس بارے میں اس قدر بیان تبدیل ہوئے۔ ایک اعلی سرکاری اہلکار نے کارروائی کے فوراً بعد کہا کہ اسامہ نے مزاحمت کی اور بندوق استعمال کی اور وہ فائرنگ کے تبدالے میں مارے گئے۔
پھر یہ انکشاف ہوا کہ اسامہ بن لادن مسلح نہیں تھے اور انھوں نے گولی نہیں چلائی۔ اس کے بعد سے عام خیال یہی ہے کہ یہ کارروائی صرف تکنیکی اور قانونی اعتبار سے ’زندہ یا مردہ حالت میں گرفتار کرنے کی تھی۔
ہولڈرز نے کہا کہ اگر اسامہ واضح طور پر یہ کہہ دیتے کہ وہ گرفتار ہونے کے لیے تیار ہیں تو وہ ان کو گرفتار کرنے کو تیار تھے۔
لیکن رات کے اندھیرے میں اور کارروائی کے دوران کشمکش میں اسامہ کی طرف سے واضح اشارہ کیا جانا ممکنات میں نہیں تھا اور اس کے کارروائی کے نتیجے کے بارے میں بہت کم شبہ ہو سکتا تھا۔
لیکن کچھ لوگوں کے لیے جن میں ایف بی آئی کے سابق اہلکار جیک کولنن بھی شامل ہیں اسامہ کی ہلاکت کے بعد یہ خلش رہ گئی کہ اسامہ کو امریکہ میں عدالت کے سامنے پیش کیا جاتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہماری خواہش تھی کہ اسامہ کو قیدیوں کے نارنجی لباس میں دیکھتے اور انھیں اس لباس میں نیو یارک کے جنوبی ضلع کی عدالت میں پیش کیا جاتا۔‘
Advertisements

No comments:

Post a Comment