Wednesday 31 May 2017

BANIGALA WAS A MISTAKE OF IMRAN KHAN


Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40107136

'بنی گالہ میں خریدی گئی زمین کا کنٹریکٹ یاد کرنا ہے یا فیض'

عمران خانتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionعدالت نے عمران خان سے بنی گالہ کی اراضی خریدنے سے متعلق منی ٹریل اور بیرون ممالک سے جماعت کو حاصل ہونے والی فنڈنگ کے بارے میں تفصیلات طلب کر رکھی ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی نااہلی سے متعلق درخواستوں کی سماعت بدھ کے روز بھی جاری رہی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سامنے عمران خان کے وکیل کی طرف سے دلائل تو دیے گئے لیکن بظاہر ایسا لگتا رہا تھا کہ عدالت عظمیٰ نعیم بخاری کے دلائل سے مطمئن نہیں۔
عمران خان کی طرف سے مبینہ طور پر اثاثے چھپانے کے معاملے پر نعیم بخاری بنی گالہ میں اُن کے موکل کی طرف سے خریدی گئی اراضی پر دلائل دے رہے تھے جس میں انھوں نے عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ خان کی طرف سے بھجوائے گئے پیسوں کا ذکر کیا تو عدالت نے اُنھیں روکا اور کہا کہ ابھی وہ صرف آف شور کمپنی نیازی سروسز پر ہی اپنے دلائل دیں جبکہ رقم بھجوانے کے معاملے پر دلائل بنی گالہ میں خریدی گئی اراضی کے ساتھ دیجیے گا۔
بینچ کی طرف سے بنی گالہ کی اراضی پر متعدد سوال پوچھے گئے جس پر ایک موقع پر نعیم بخاری نے برجستہ کہا کہ مائی لارڈز کیا انہیں ان کے موکل کی طرف سے بنی گلالہ میں خریدے گئی زمین کا ’کنٹریکٹ یاد کرنا ہے یا فیض'۔
ان کے اس جملے پر کمرہ عدالت میں قہقہ بلند ہوا۔
عمران خان کے وکیل نے تین رکنی بینچ میں شامل ججز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مجھ سے فیض احمد فیض کا کوئی شعر پوچھیے تو اس کا فوری جواب دوں گا اور اگر نہ دے سکا تو آپ کا مجرم ہوں گا۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر عدالت کا کہنا تھا کہ آف شور کمپنی کا معاملہ اس وقت ہی کیوں ظاہر کیا گیا جب یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے نوٹس میں آیا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت نے عمران خان کے وکیل سے پوچھا کہ اُن کے موکل نے اپنے جواب میں بنی گالہ کی اراضی کے بارے میں بہت سی منی ٹریل پیش کی ہیں لیکن ابھی تک عدالت کو یہ نہیں بتایا گیا کہ کون سا منی ٹریل 'سٹینڈ' کرتا ہے۔
نعیم بخاریتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionعمران خان کے وکیل نعیم بغاری
سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کی طرف سے عمران خان کے وکیل سے جب سوالات پوچھے جاتے اور وہی سوالات اُن کی درخواست میں اُٹھائے گئے نکات سے مطابقت رکھتے تو کمرہ عدالت میں موجود مسلم لیگ نواز کے رہنما اور اراکین اسمبلی ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے 'ایدھا جواب دیو ناں‘ یعنی اس کا جواب دیں تو پتہ چلے۔
عدالت کی طرف سے جب متعدد بار عمران خان کے وکیل سے منی ٹریل کے بارے میں پوچھا جاتا تو نعیم بخاری کی طرف سے اس کا جواب دینے سے پہلے حکومتی ارکان دور سے ہی سر ہلا دیتے جیسے وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے ہوں کہ ان کے پاس منی ٹریل نہیں ہے۔
سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور کارکن ایک ساتھ بیٹھنے کی بجائے الگ الگ بیھٹے ہوئے تھے اور جب عدالت نعیم بخاری سے مختلف نوعیت کے سوالات کرتی تو ان کے چہرے پر سنجیدگی طاری ہو جاتی اور یہ سنجیدگی میڈیا کے نمائندوں سے بات کرنے تک جاری رہی۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان نے بنی گالہ کی اراضی سے متعلق یہ بیان دیا کہ ان کے پاس تمام شواہد موجود ہیں لیکن منی ٹریل کے بارے میں کچھ نہ بتاتے اور اس کے بعد وہ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے۔
حزب مخالف کی جماعت کی طرف سے یہ الزامات اتنی دفعہ دھرائے گئے ہیں جس کی وجہ سے وہاں پر موجود میڈیا کے لوگ ان باتوں کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔


No comments:

Post a Comment