Monday 29 May 2017

PANAMA JIT: PAKISTAN SC REJECTS HUSSAIN NAWAZ'S OBJECTIONS ON MEMBERS JIT


SOURCE: https://arynews.tv/en/sc-rejects-hussain-nawazs-objections-jit-members/






PAKISTAN

SC rejects Hussain Nawaz’s objections on JIT members



ISLAMABAD: A three-member special bench of the Supreme Court on Monday dismissed the plea filed by Prime Minister Nawaz Sharif’s son Hussain Nawaz, expressing his reservations on two members of the Joint Investigation Team (JIT) probing offshore properties of Sharif family in line with the top court’s verdict in Panama leaks case, ARY News reported.
During the court proceeding today, the bench ruled that no JIT member could be excluded or replaced on basis of mere suspicion while directing the investigation team to complete the probe within the prescribed time frame in line with Panamagate verdict.
Hussain Nawaz’s counsel Khawaja Haris contended that the court had rejected a notion introducing audio and video recording during the investigation. He told the bench that both kind of recordings are taking place during the JIT’s investigation, adding, law does not permit. He also argued that the behaviour of two members of the JIT  was abusive.
The bench ruled that evidences were not enough and nobody was above the law.
Justice Ejaz Afzal Khan said that the two members of the JIT who have been ‘targeted’ by Hussain in his application, have vast professional experience in white-collar crime.
“We will not replace any member of the JIT and neither prevent someone from doing their work,” he remarked.
It is pertinent to mention that Hussain Nawaz in his plea had alleged that one of the two members of JIT committee was a close friend of former president General Pervez Musharaf and was very active during special court proceedings in treason case against Musharaf.
Hussain also claimed that the other one is relative of former governor of Punjab Mian Azhar who is currently linked with Pakistan Tehreek-e-Insaaf (PTI).
The reservations were raised against Amer Aziz and Bilal Rasool, who respectively represent the State Bank of Pakistan (SBP) and the Securities and Exchange Commission of Pakistan (SECP) in the six-member JIT.
**** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40123657

سپریم کورٹ کے جج کے ریمارکس افسوسناک ہیں: حکومت پاکستان کے ترجمان




پاکستان کے وزیراعظم نواز شریفتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے علم میں آتے ہیں انہوں نے نہال ہاشمی کے خلاف ایکشن لیا

حکومت پاکستان کے ترجمان کے جاری کردہ ایک بیان میں سپریم کورٹ میں نہال ہاشمی کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران ’ایک معزز جج کے مبینہ ریمارکس‘ پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
جمعرات کی شام جاری کیے گئے ایک بیان میں لکھا ہے کہ ترجمان کی جانب سے ’ان مبینہ ریمارکس کو اعلیٰ عدلیہ کی روایات کے منافی‘ قرار دیا گیا ہے۔
جاری کردہ اس بیان پر کوئی سٹامپ ہے نہ ہی کوئی دستخط اور نہ ہی ترجمان کا نام ظاہر کیا گیا ہے لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ یہ بیان وزیراعظم ہاؤس سے جاری کیا گیا ہے۔
حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’معزز جج نے وزیراعظم کی جانب سے نہال ہاشمی کے خلاف اٹھائے گئے انتہائی تادیبی اقدامات کو نظر انداز کرتے ہوئے محض سپریم کورٹ اور توہین عدالت نوٹس کا ردعمل قرار دیا۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ترجمان کے مطابق ’حقائق نہ صرف اس کے برعکس ہیں بلکہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تمام ریکارڈ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حکومت نے نہال ہاشمی کے ریمارکس کے سامنے آتے ہی نہ صرف ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا بلکہ فوری طور پر انھیں ان کی ذاتی سوچ کا عکاس قرار دیا۔‘
اس بات کو ثابت کرنے کے لیے بیان میں کہا گیا ہے کہ نہال ہاشمی کے خیالات پہلی مرتبہ 31 مئی کی صبح الیکٹرانک میڈیا میں رپورٹ ہوئے اور اس کے بعد 31 مئی کی شام ساڑھے پانچ بجے نہال ہاشمی کے سیکرٹری سینیٹ کو تحریری استعفیٰ دینے تک تمام ٹائم لائن دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے اس معاملے کا نوٹس اس کے بعد لیا گیا تھا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ بدھ کی صبح وزیر اعظم نواز شریف قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے سربراہان کے ساتھ میٹنگز اور کابینہ کے اجلاس میں مصروف تھے لیکن جیسے ہی وہ فارغ ہوئے تو یہ معاملہ ان کے علم میں لایا گیا اور انہوں نے فوری طور پر نہال ہاشمی کی پارٹی رکنیت معطل کرتے ہوئے انہیں شوکاز نوٹس جاری کر دیا تھا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ توہینِ عدالت کے کیس کی سماعت کے دوران ایک معزز جج کی جانب سے حکومت کو ’سِسلی کی مافیا‘ قرار دینا انتہائی افسوس ناک ہے۔
یاد رہے کہ جمعرات کو حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت تین رکنی بینچ نے کی۔



سپریم کورٹ
Image captionنہال ہاشمی نے اُمید ظاہر کی کہ عدالت اُنھیں معاف کردے گی

اس سے پہلے جمعرات کی صبح نہال ہاشمی نے اُمید ظاہر کی تھی کہ عدالت اُنھیں معاف کر دے گی تاہم عدالت نے اُن کی درخواست منظور نہیں کی اور اُنھیں توہین عدالت کے مقدمے میں اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرتے ہوئے پانچ جون تک جواب داخل کروانے کی مہلت دی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے بدھ کی شب نہال ہاشمی کی میڈیا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اس ویڈیو کا ازخود نوٹس لیا تھا جس میں انھیں پاناما لیکس کیس میں تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کو دھمکیاں دیتے سنا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نہال ہاشمی نے کہا کہ ’حساب لینے والے آج حاضر سروس ہیں، کل ریٹائر ہو جائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنا دیں گے۔‘
اس بیان کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ یہ نہال ہاشمی کی ذاتی رائے ہے اور مسلم لیگ ن قانون کی بالادستی میں یقین رکھتی ہے۔
ویڈیو میں نہال ہاشمی کو یہ بھی کہتے سنا جا سکتا ہے 'اور سن لو جو حساب ہم سے لے رہے ہو، وہ تو نواز شریف کا بیٹا ہے، ہم نواز شریف کے کارکن ہیں، حساب لینے والوں! ہم تمھارا یوم حساب بنا دیں گے۔'



پاکستان کے وزیراعظم نواز شریفتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionبیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے علم میں آتے ہیں انہوں نے نہال ہاشمی کے خلاف ایکشن لیا

متعلقہ عنوانات

**** 

SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40133639 

’گاڈ فادر سے سسیلیئن مافیا تک‘



کورٹتصویر کے کاپی رائٹAFP

کسی بھی جھگڑے میں فریقین کے درمیان تناؤ اور تلخی قدرتی عمل ہے۔ پاناما لیکس کا معاملہ جب سے سپریم کورٹ کی دہلیز پر رکھا گیا ہے عدلیہ نے اسے ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔
ایسے میں سچ کی تلاش میں سرگرم سپریم کورٹ ایک اور وزیراعظم نواز شریف کی حکومت بظاہر دوسرا فریق بن چکے ہیں۔ ایسے میں دونوں میں تلخی قدرتی عمل ہے۔
حکومت عدلیہ کا بظاہر احترام اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کا راگ تو ضرور الاپتی ہے لیکن پاناما لیکس کے فیصلے کے بعد حکمراں جماعت کی طرف سے دبے الفاظ میں تنقید ضرور کی جاتی رہی ہے۔ ایسے حالات میں عدالت عظمی نے بھی قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کے وقار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک پوزیشن لی ہوئی ہے جو ابھی تک برقرار ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق جب 20 اپریل کو اپنا فیصلہ سنایا تو اس کی ابتدا ہی پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اختلافی نوٹ سے کی گئی۔ اس نوٹ کی ابتدائی لائن ہی سنہ 1969 میں ماریو پوزو کے مشہور زمانہ ناول 'گارڈ فادر' کے اس مشہور فقرے سے کی گئی کہ 'ہر عظیم کامیابی کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے۔'
اگرچہ پاناما لیکس سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں پر فیصلہ جسٹس اعجاز افضل نے لکھا ہے لیکن جسٹس آصف سعید کھوسہ کے اس اختلافی نوٹ کی گونج نہ صرف پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں سنائی دی بلکہ اس کے چرچے زبان زد عام بھی ہوئے۔
ان درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی جب صادق اور امین کے معاملے پر دلائل دیے جا رہے تھے تو اس دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ اگر صحیح طریقے سے صادق اور امین کی جانچ پڑتال کی جائے تو پھر شاید درخواست گزار سینیٹر سراج الحق کے علاوہ کوئی بھی پارلیمنٹرین آئین کی اس شق پر پورا نہ اُتر سکے تاہم اگلے ہی روز سپریم کے اس پانچ رکنی بینچ کے سربراہ نے معذرت کرتے ہوئے اپنے الفاظ واپس لے لیے تھے۔
پاناما لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو حزب مخالف کی جماعتوں بلخصوص پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عوامی جلسوں میں وزیر اعظم کے لیے گارڈ فادر کا لقب استمال کرتے رہے ہیں۔
عمران خان تو سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا سہارا لیتے ہوئے وزیراعظم کو جھوٹا بھی قرار دیتے رہے لیکن جب پاناما لیکس سے متعلق درخواستوں کا فیصلہ لکھنے والے جج جسٹس اعجاز افضل نے اس بات کا نوٹس لیا اور یہ واضح کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح نہ کی جائے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو پھر عدالت ایسا کرنے والوں کو کٹہرے میں لائے گی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے اس تنبیہ کے بعد عمران خان دوبارہ ایسے الفاظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔
فیصلے میں گاڈ فادر کا لفظ استعمال پر اگرچہ حکومتی نے بظاہر ردعمل ظاہر نہیں کیا تھا لیکن پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ آصف نے اس اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے 'سویپنگ سٹیٹمنٹ' پر تحفظات کا اظہار ضرور کیا تھا۔
ابھی یہ معاملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ حکمراں جماعت کے سینیٹر نہال ہاشمی کی طرف سے اداروں کی تضحیک پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا تو اس کی سماعت کے دوران عدالت کافی جارحانہ موڈ میں نظر آئی اور سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس عظمت سعید نے اس معاملے پر حکومت کو آڑھے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے سسیلیئن مافیا قرار دے دیا۔
اٹلی کا سسیلیئن مافیا مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
ابتدا میں یہ مافیا غریب کسانون کی فصلوں اور جانوروں کو تحفظ فراہم کرتا تھا لیکن پھر وقت گزارنے کے ساتھ ساتھ وہ ان پر غاصب ہوگئے۔
سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے ریمارکس کے بعد پھر وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے ترجمان کے دستخطوں کے بغیر ایک بیان جاری کیا گیا جس میں فاضل جج کے ریمارکس پر نہ صرف تحفظات کا اظہار کیا گیا بلکہ ان ریمارکس کو ججز کے کوڈ آف کنڈیکٹ کے خلاف ورزی بھی قرار دیا گیا۔
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ججز کو صرف فیصلے لکھنے چاہیے اور اس طرح کے ریمارکس فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔


Image captionحکومت پاکستان کے ترجمان کے بیان میں سپریم کورٹ میں نہال ہاشمی کے خلاف توہینِ عدالت کیس کی سماعت کے دوران 'ایک معزز جج کے مبینہ ریمارکس' پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے سابق صدر طارق محمود جہانگیری کہتے ہیں کہ اگر کسی کو ججز کے ریمارکس پر اعتراض ہے تو اس کی دادرسی کا طریقہ بھی موجود ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس بارے میں ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے جس میں کسی بھی جج کے ریمارکس کو عدالتی کارروائی سے ہذف کرنے کی درخواست کی جا سکتی ہے۔
حکمراں جماعت اس بات پر بھی تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہے کہ وزیراعظم کے معاملے پر تو 'ادارے' فوری حرکت میں آ جاتے ہیں جبکہ عمران خان کے خلاف متعدد مقدمات زیر التوا ہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اُنھیں اشتہاری بھی قرار دیا گیا ہے لیکن اُن کے خلاف 'ادارے' اس طرح ایکشن میں نظر آتے جس طرح حکمراں جماعت کے خلاف۔
پاکستان مسلم لیگ نواز پر پہلے بھی سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے دور میں سپریم کورٹ کی عمارت پر حملہ کرنے کا الزام ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ عدلیہ بحالی کی تحریک کی کامیابی کے سب سے بڑی دعودیدار بھی ہے۔

متعلقہ عنوانات


Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40241002
PM Pakistan Summonmed by JIT FOR CROSS EXAMINATION OF BURRIED FACTS

وزیراعظم نواز شریف کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کا نوٹس


نوازتصویر کے کاپی رائٹAFP

پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم نے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو جمعرات کو پیش ہونے کا نوٹس بھیجا ہے۔
جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے بھجوائے گئے نوٹس کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کو 15 جون بروز جمعرات صبح 11 بجے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جے آئی ٹی کے سامنے طلب کیا گیا ہے۔
وزیرِ اطلاعات مریم اورنگزیب نے اس معاملے پر ردِ عمل دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں جانے کے فیصلے سے پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم ہورہی ہے۔
انھوں نے کہا ’محض بیان بازی نہیں، وزیراعظم کا جے آئی ٹی جانے کا فیصلہ پاکستان کے آئین اور قانون کی عملی پاسداری کا ثبوت ہے۔‘وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا وزیراعظم نے کسی عذر یا بہانے کا سہارا نہیں لیا بلکہ پاکستان کی عوام کے اعتماد کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا۔
جے آئی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں وزیراعظم نواز شریف کو دستاویزات اور ریکارڈ ہمراہ لانے کا کہا گیا ہے جبکہ وزیراعظم ہاؤس نے نوٹس کی موصولی کی تصدیق کر دی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوں گے۔
اسلام آباد میں بی بی سی کے نامہ نگار نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق سکیورٹی حکام کو موصول ہونے والے احکامات کے مطابق 15 جون وزیراعظم نواز شریف اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے لیے روٹ لگانے اور حفاظتی اقدامات کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
اس سے قبل نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز پانچ بار اور حسین نواز دو بار جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب پیر کو حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کا معاملے اور نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کی طرف سے پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی چھ رکنی تحقیقاتی ٹیم کے مبینہ نامناسب سلوک کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھے گئے خط کے بارے میں سماعت ہوگی۔
جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ ان درخواستوں کا جائزہ لے گا۔ جبکہ گذشتہ سماعت کے دوران تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا نے تفتیش کے دوران رکاوٹوں کا بھی ذکر کیا تھا جس پر سپریم کورٹ نے انھیں الگ سے درخواست دائر کرنے کا حکم دیا ہے۔

حسینتصویر کے کاپی رائٹEPA/AFP
Image captionواز شریف کے دونوں صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز بھی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے سامنے پیش ہوچکے ہیں

واضح رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے پاناما لیکس کیس کے فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں چھ رکنی جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم دیا تھا۔
اس فیصلے میں سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان نے کمیٹی کو ساٹھ دن کے اندر اپنی تحقیقات مکمل کرنے کا وقت دیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹیم کے لیے وضع کیے گئے ضوابط کمیٹی کو ہر 15 دن کے اندر اپنی رپورٹ تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔
جب کہ 22 مئی کو وزیر اعظم اور اُن کے دو بیٹوں کے خلاف پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم کو اپنا کام مکمل کرنے کے لیے 60 روز سے زیادہ کی مہلت نہیں دی جا سکتی۔

متعلقہ عنوانات


**** 

Source: http://www.bbc.com/urdu/pakistan-40248266
TEMPERING OF STATE RECORD- ACCUSED BY JIT

ریاستی ادارے دستاویزات میں ردوبدل اور ریکارڈ تبدیل کر رہے ہیں: جے آئی ٹی

سپریم کورٹ
Image captionسپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو لکھی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 60 روز کے اندر تفتیش مکمل نہیں ہوسکتی
پاکستان کے وزیر اعظم اور اُن کے بچوں کے خلاف پاناما لیکس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے عدالت عظمیٰ کو بتایا ہے کہ ریاستی ادارے اس معاملے میں مانگی گئی دستاویزات میں نہ صرف ردوبدل کرر ہے ہیں بلکہ اس کے ریکارڈ کو تبدیل بھی کیا جا رہا ہے۔
اسی جے آئی ٹی کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف کو 15 جون بروز جمعرات صبح 11 بجے اسلام آباد میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں طلب بھی کیا گیا ہے۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ریاستی اداروں کی جانب سے تحقیقات میں مداخلت کی بات پیر کو جے آئی ٹی کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی تحریری درخواست میں کی گئی ہے۔
درخواست میں تحقیقات کی نگرانی کرنے والے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو بتایا گیا ہے کہ تفتیش کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ ’رکاوٹیں‘ کن اداروں یا شخصیات کی طرف سے کھڑی کی جا رہی ہیں۔
تفتیشی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا کی طرف سے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو لکھی گئی اس درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسے حالات میں سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں 60 روز کے اندر تفتیش مکمل نہیں ہو سکتی۔
سماعت کے دوران تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کسی پارٹی کی حیثیت سے نہیں بلکہ وفاق کے نمائندے کی حیثیت سے جے آئی ٹی کے الزامات کے بارے میں جواب داخل کریں۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر ان الزامات میں کوئی حقیقت ہے تو پھر ایسے افراد کی نشاندہی کریں جو تفتیش میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔

تصویر لیک کا معاملہ

دوسری طرف وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کی تصویر لیک ہونے کے معاملے پر درخواست کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی نے ان الزامات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ اُن کی طرف سے یہ تصویر لیک نہیں کی گئی تاہم اس بارے میں تحقیقات ابھی جاری ہیں۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں ویڈیو ریکارڈنگ کی کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن ضابطہ فوجداری کے تحت صرف اسی صورت میں کسی شخص کا بیان ویڈیو کے ذریعے ریکارڈ کیا جا سکتا ہے اگر اس کو لکھنا مقصود ہو تاکہ کوئی غلطی نہ رہے۔
حسین نوازتصویر کے کاپی رائٹEPA
Image captionجے آئی ٹی نے ان الزامات کو مسترد کردیا ہے کہ اس کی طرف سے حسین نواز کی تصویر لیک کی گئی
اُنھوں نے کہا کہ 'بطور شہادت اس ویڈیو ریکارڈنگ کو اس شخص کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔' اور وہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی صرف ایک مخصوص مدت کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔
عدالت نے وزیراعظم کے صاحبزادے کی طرف سے اس معاملے میں دائر کی گئی درخواست کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرلیا اور حسین نواز کے وکیل سے کہا ہے کہ وہ اس ضمن میں 14 جون کو دلائل دے سکتے ہیں۔
درخواست کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الحسن نے نیشنل بینک کے صدر سعید احمد کا نام لیے بغیر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیسے ایک شخص کے جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کروانے کے بعد اس کی طرف سے جے آئی ٹی کے رویے کے خلاف سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو لکھا جانے والا خط میڈیا کی زینت بن گیا؟
سماعت کے دوران جے آئی ٹی کے چھ ارکان کو سپریم کورٹ کی عمارت کے مرکزی دروازے سے سخت سکیورٹی کے حصار میں کمرہ عدالت میں لایا گیا۔ اس موقع پر صحافیوں نے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ سے سوالات بھی کیے لیکن اُنھوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔
دوسری جانب پاناما لیکس سے متعلق تحقیقات کرنے والی ٹیم نے سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کو 13 جون کو طلب کرلیا ہے اور اُنھیں شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کی تحقیقات کے حوالے سے دستاویزات بھی ساتھ لانے کو کہا ہے۔
رحمان ملک نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت حدیبہ پیپرز ملز کی تحقیقات کیں تھیں جب وہ ایف آئی اے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر تعینات تھے۔

No comments:

Post a Comment