ACTION RESEARCH OPINION: IND GUJRAT MASSACRE OF MUSLIMS IN 2002 BY MODI RAJ WHERE ETHNIC HARTRED BEGAN, CONTINUED TILL TODAY. NATURAL RECKONING BOUND TO HAPPEN, MODI HELL IS INEVITABLE.
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39801301
****
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39801301
بلقیس بانو مقدمے میں 11 مجرمان کی سزائیں برقرار
انڈیا کی مغربی ریاست گجرات کے بدنام زمانہ بلقیس بانو کیس میں بمبئی ہائی کورٹ نے عمر قید کی سزا کے خلاف 11 مجرمان کی اپیل مسترد کردی ہے، لیکن عدالت نے ان میں سے تین افراد کو سزائے موت دینے کی سی بی آئی کی اپیل کو بھی تسلیم نہیں کیا۔
یہ واقعہ تین مارچ 2002 کو پیش آیا تھا جب بلقیس بانو کے خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ خود بلقیس بانو کو اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کیس میں ذیلی عدالت نے 11 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
ہائی کورٹ نے ان تین افراد کی سزائیں بڑھانے سے انکار کردیا جن پر قتل اور ریپ کا جرم ثابت ہوا تھا۔ لیکن ساتھ ہی عدالت نے ان پانچ پولیس والوں کو بھی مجرم قرار دیا جنھیں ذیلی عدالت نے ملزمان کے ساتھ مل کر ثبوت ختم کرنے کے الزام سے بری کر دیا تھا۔
یہ مقدمہ سپریم کورٹ کے حکم پر گجرات سے ممبئی منتقل کر دیا گیا تھا۔ استغاثہ نے فرد جرم میں کہا تھا کہ اجتماعی ریپ کے وقت بلیقس بانو حاملہ تھیں۔ بعد میں انھوں نے خود حملہ آوروں کی شناخت کی تھی۔
ممبئی کی ایک ذیلی عدالت نے 2008 میں 12 افراد کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ مجرموں میں سے ایک کی موت ہو چکی ہے۔
گجرات کے مذہبی فسادات میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے جن میں زیادہ تر مسلمان تھے۔ اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔
فسادات سے پہلے گودھرا کے ریلوے سٹیشن کے قریب ایک ٹرین میں آگ لگائی گئی تھی اور اس واقعے میں 50 سے زیادہ ہندو کارسیوک یا رضاکار ہلاک ہو گئے تھے۔
بلقیس بانو کا کیس اقلیتوں کے قومی کمیشن کی مداخلت کے بعد اس وقت سرخیوں میں آیا تھا جب سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو الزمات کی تفتیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس سے پہلے ایک میجسٹریٹ نے کیس بند کرنے کی سفارش کی تھی لیکن میجسٹریٹ کے حکم کو بلقیس بانو نے چیلنج کیا تھا۔
No comments:
Post a Comment