Saturday 13 May 2017

PSUNAMI MAY REPEAT LIKE 1945 TO MAKRAN COASTS (IRAN, PAKISTAN, OMAN)


ACTION RESEARCH FORUM: IT IS EVOLUTION PROCESS OF NATURE (CREATOR)


****

Source: http://www.bbc.com/urdu/world-39908990

پاکستان اور ایران کو سونامی کے مشترکہ خطرے کا سامنا

سونامی
Image captionدنیا کے کئی ممالک میں سونامی سے بچنے کے لیے وارننگ سسٹم نافذ کیے جا چکے ہیں
ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستان اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹی ایک بڑے سونامی کی زد میں ہے۔
اس خطے میں عمانی اور پاکستانی ساحلی پٹیوں پر تیزی سے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے اور ساحل پر آباد بستیاں شہروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے اور زیادہ لوگ سونامی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ علاقے جہاں تیزی سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں 1945 میں زلزلے سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔
جیوفیزیکل جرنل انٹرنیشنل کی اس تحقیق میں ماہرین نے اس خطے میں سیسمولوجی، جیوڈیسی اور جیومارفولوجی جیسی تکنیک استعمال کی ہیں۔
مکران کا مشرقی حصہ پاکستان میں ہے جہاں 1945 میں 8.1 درجے کے زلزلے اور پھر سونامی کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سونامی سے موجودہ پاکستان اور عمان متاثر ہوئے تھے۔ یہ خطہ زلزلوں کی زد میں ہے اور اس برس فروری میں بھی یہاں چھ درجے کا زلزلہ آ چکا ہے۔
مکران کا مغربی حصہ جو ایران میں ہے اگر وہاں بھی زلزلے آئیں اور پورے مکران میں میگاتھرسٹ ایک ساتھ حرکت کرے تو اس خطے میں سماترا اور ٹوکیو کی طرح نو درجے کا ایک خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان کا جنوبی ساحلی علاقہ مکران ایک سبڈکشن زون ہے۔ اس خطے میں زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹ یا پرت ایک دوسری پرت کے نیچے سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی فالٹ لائن وجود میں آ رہی ہے۔ اسی فالٹ لائن کو میگا تھرسٹ کہا جاتا ہے۔
یہ پرتیں ایک دوسرے کے ساتھ مخالف سمت میں سرکتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ اِس دوران یہ ایک دوسرے میں پھنس سکتی ہیں جس کے نتیجے میں دباؤ پیدا ہوتا ہے۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ ہو سکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں زلزلہ آ جائے۔
جب میگاتھرسٹ تیزی سے حرکت کرتا ہے تو سمندر کی زمین بری طرح ہل جاتی ہے اور ایک بڑے علاقے میں پانی کو اچھال دیتی ہے جس کے نتیجے میں اونچی اونچی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو میلوں دور تک جا سکتی ہیں۔
سونامیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionساحلی علاقوں میں رہنے والوں کے لیے سونامی سے متعلق آگاہی ضروری ہے
تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ 2004 میں سماترا اور پھر 2011 میں ٹوکیو میں آنے والی سونامی اِسی وجہ سے آئی تھیں
2004 میں بحرِ ہند کے جزیرے سماترا کے پاس زیرِ سمندر نو درجے کے زلزلے کے نتیجے میں کئی میٹر اونچی لہروں نے ایسی تباہی مچائی کہ دو لاکھ 30 ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہوئے۔ اِس زلزلے سے 14 ممالک متاثر ہوئے تھے۔
اس کے بعد 2011 میں جاپان میں نو درجے کے زلزلے کے نتیجے میں 20 میٹر اونچی سمندری لہروں نے پندرہ ہزار افراد کو ہلاک کیا۔ اس سونامی سے فوکوشیما کا جوہری بجلی گھر بھی متاثر ہوا اور تابکاری کا خطرہ پیدا ہوا۔
لندن کے جریدے جیوفیزیکل جرنل انٹرنیشنل میں چھپنے والی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ بحیرہ عرب کے شمالی کونے پر ایک ہزار کلومیٹر لمبی زلزلے کے خطرے والی پٹی ہے جو اسی طرح کے خطرے سے دوچار ہے۔ ایران اور پاکستان کا جنوبی ساحلی علاقہ مکران اسی میں شامل ہے۔

No comments:

Post a Comment