Source: http://www.bbc.com/urdu/world-40032052
دولت اسلامیہ کے بعد موصل کی رونقیں بحال؟
شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کا تین سالہ دور عراق کے شہر موصل کے رہائشیوں کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا۔ شہریوں کے مطابق ان تین سالوں میں انھوں نے شدید تشدد دیکھا جہاں بچوں کو چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر قتل کر دیا جاتا تھا، عوامی طور جرم کرنے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے اور لوگوں کو حراست میں لے کر انھیں غائب کر دینا بہت معمول کی بات تھی۔
موصل شہر کو اس سال جنوری میں دولت اسلامیہ کے قبضہ سے چھڑا لیا گیا ہے۔ وہاں سے بی بی سی کو حاصل ہونی والی خصوصی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح دولت اسلامیہ کے جنگجو خواتین اور اقلیتی مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو اذیتیں پہنچاتے تھے۔
لیکن ان ویڈیوز میں یہ بھی دیکھا جا سکتا دولت اسلامیہ کو نکالے جانے کے بعد سے شہر میں کس طرح زندگی معمول پر واپس آرہی ہے اور کس طرح سکول، کیفے، اور دکانیں روز مرہ کے معمول کے مطابق شروع ہو گئی ہیں۔
بی بی سی کے لیے صحافی غادی سارے نے خفیہ طریقہ سے ویڈیوز بنائیں کیں اور ان میں موصل کے رہائشیوں کی زندگی کے مختلف حالات فلم بند کیے۔
خواتین کی زندگیوں پر قابو:
مارچ میں موبائل فون کی مدد سے بنائی گئی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح دولت اسلامیہ کو شہر سے نکالے جانے کے بعد خواتین کی زندگیاں بہتر ہو رہی ہیں اور دکانوں میں ان کے لیے کپڑوں اور میک اپ کی مصنوعات کی فروخت دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔
36 سالہ ماہا کہتی ہیں: 'میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتی جس دن ایک سات سالہ بچی کے ساتھ انھوں نے کیا ظلم کیا تھا۔ وہ بچی ایک چھوٹی سی دکان کے عمر رسیدہ دکاندار سے ٹافی خرید رہی تھی جب دولت اسلامیہ کے شدت پسند اس کے پاس گئے اور اس سے پوچھا وہ کدھر رہتی ہے۔ بچی نے انھیں جواب دیا اور اس کے فوراً بعد وہاں سے بھاگ گئی۔ اس بچی کے والدین مکان سے باہر نکلے تو دولت اسلامیہ کے دہشت گردوں نے انھیں بولا کہ ان کی بچی نے شریعہ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس دکاندار کے ساتھ اکیلے وقت گزارا اور طویل بحث کے بعد اس کے لیے سزا متعین کی۔
اس بچی کی ماں نے متعدد بار اس کی جان کی امان کی درخواست کی اور ان سے بولا کہ اس چھوٹی سے بچی کی غلطی کو معاف کر دیں اور بچی کے بجائے اس کی ماں کو سزا دے دیں لیکن ان حیوانوں نے کوئی بات نہیں سنی اور اس بچی کو پر تشدد طریقے سے زود و کوب کیا جس سے اس بچی کی موت ہوگئی۔
اس اندوہناک واقعہ کے بعد سارا محلہ اپنے بچوں کی زندگیوں کے لیے سخت پریشان ہو گیا تھا۔'
27 سالہ ریم کہتی ہیں کہ دولت اسلامیہ کے دور میں انھیں ہر وقت ایسا لگتا تھا کہ وہ جیل میں زندگی گزار رہیں ہیں اور ان کے لیے گھر سے باہر نکلنے کے مواقعے بہت کم تھے۔
انھوں نے بتایا کہ دولت اسلامیہ کے نکالے جانے کے باوجود بھی ان کو ڈر اور خوف ہے اور وہ اس بارے میں ڈراؤنے خواب دیکھتی ہیں۔
روز مرہ کے معمول کی بربادی:
موصل کے شہریوں کی زندگیاں دولت اسلامیہ کی وجہ سے مکمل طور پر تبدیل ہو گئی تھیں۔ فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح موصل کی یونیورسٹی تباہ کی گئی تھیں لیکن وہاں کے شہری دوبارہ کلاسیں شروع کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
30 سالہ حسین بتاتے ہیں کہ دولت اسلامیہ نے اپنے دور حکومت میں فیصلہ کیا کہ وہ سیٹلائٹ ڈشوں پر پابندی عائد کریں گے۔
میرے والد کو خدشہ تھا کہ اگر دولت اسلامیہ والوں کو معلوم ہو گیا کہ ہمارے پاس ڈش ہے تو وہ ہمیں سخت سزا دیں گے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ اس ڈش کو نکال دیں۔
لیکن اس کے بعد جب کئی ہفتوں تک دولت اسلامیہ والوں نے پورا شہر بند کر دیا اور اس کی وجہ سے ہم بالکل فارغ اور بے روزگار تھے تو ہم گھر پر بیٹھے بیٹھے بور ہو گئے۔ تو اس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ ڈش دوبارہ لگا دی جائے۔
ہم نے اپنے طور پر ڈش کو اپنی چھت پر ایسے لگایا تھا کہ وہ چھپی رہی اور آسانی سے نظر نہ آئے لیکن چند ہی دنوں کے بعد ہماری گلی سے چیخ و پکار کی آوازیں آئیں تو ہم اسی وقت سمجھ گئے کہ دولت اسلامیہ کہ مذہبی پولیس حصبہ آگئی ہے تو میں فوراً بھاگا کہ چھت سے ڈش کو نکال دیں۔
اسے وقت دولت اسلامیہ والے ہمارے دروازے سے گھس کر اندر آگئے اور میرے والد کو گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ میں فوراً ان کو بچانے کے لیے نیچے بھاگا تو وہ مجھے بھی میرے محلے کے دوسرے نوجوانوں کے ساتھ پکڑ کر لے گئے۔
حسین نے مزید بتایا کہ حراست میں لیے جانے کے بعد انھوں نے نو دن صعوبت میں سوئے بغیر گزارے۔ اس کے بعد ان کو ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا جس نے انھیں 60 دفعہ کوڑے مارنے کی سزا سنائی۔
جب ان کو کوڑے مارنے شروع کیے گئے تو تکلیف سے ان کی چیخیں نکل گئیں اور ہر چیخ پر دولت اسلامیہ والے گنتی دوبارہ صفر سے شروع کرتے۔
اقلیتوں کے ساتھ ظلم و ستم:
دولت اسلامیہ نے اپنے دورِ حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ تو ظلم کیا ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے گرجا اور ان کے گھروں کو بھی تباہ و برباد کر دیا اور وہاں لوٹ مار مچائی۔
32 سالہ حمزہ کہتے ہیں کہ جب دولت اسلامیہ شہر میں داخل ہوئی تو اس نے مساجد اور گرجا گھروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا۔
حمزہ نے بتایا کہ ان کے ایک پڑوسی نے اپنے عیسائی دوست کے مکان کی چابیاں سنبھال لیں جب وہ دولت اسلامیہ کے آنے کے بعد شہر سے بھاگ گیا۔
'دولت اسلامیہ والوں نے مسلسل اس پر دباؤ ڈالا کہ وہ گھر کی چابیاں ان کے حوالے کر دیں لیکن میرے پڑوسی نے ہمیشہ مزاحمت کی اور ان کو بولا کہ اگر وہ ہمارے پیغمبر کی عزت کرتے ہیں تو وہ ان کی دی ہوئی تعلیم کی عزت کریں گے اور کسی کے جان و مال کی امانت میں خیانت نہیں کریں گے۔
اس کے بعد وہ مسلسل میرے پڑوسی کے پاس آتے رہے، ڈراتے دھمکاتے رہے لیکن وہ ڈٹا رہا۔ حتی کہ ایک بار وہ اس کو پکڑ کر لے گئے اور اس پر تشدد کیا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
بالآخر میرے پڑوسی نے دولت اسلامیہ والوں کو یقین دلایا کہ اس نے وہ مکان اپنے بیٹے کے لیے خرید لیا ہے اور جب ہمیں دولت اسلامیہ کہ قبضے سے چھٹکارا ملا اور میرے پڑوسی کے عیسائی دوست واپس آئے تو کہیں جا کر اس نے گھر کی چابیاں واپس کیں۔ '
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/world-40081409
موصل کے شہری شدید خطرے میں ہیں: اقوامِ متحدہ
عراق میں تعینات اقوام متحدہ کے اہلکار کا کہنا ہے کہ موصل شہر پر عراقی فوج کا حملہ آخری مرحلے میں داخل ہونے کے بعد سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا عام شہریوں کو کرنا پڑا ہے۔
عراق میں اقوام متحدہ کی انسانی امداد کے کوارڈینیٹر لیز گرانڈے نے بی بی سی کو بتایا کہ خود کو دولتِ اسلامیہ کہلانے والی شدت پسند تنظیم براہ راست خاندانوں کو نقصان پہنچا رہی ہے اور اس وجہ سے وہاں کے باشندے شدید خطرے میں ہیں۔
شہر میں پہلے سے ہی لوگ پانی اور بجلی کی قلت کا شکار ہیں۔ عراقی فوج کا کہنا ہے کہ سنیچر کو دولتِ اسلامیہ پر نئے حملے میں انھیں اہم کامیابی ملی ہے۔
فوج کا کہنا ہے کہ پرانے موصل شہر میں بچ جانے والے شدت پسند قلعوں کو آزاد کرانے کی کوششوں میں انھوں نے پیش قدمی کی ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں موصل کو دولتِ اسلامیہ کے قبضے سے چھڑانے کی جنگ شروع ہوئی تھی۔ تب سے لاکھوں عام شہری یہ شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
لیز گرانڈے نے کہا کہ حملے کا اگلا مرحلہ سب سے مشکل ہوگا۔ ان کے مطابق ’اس پوری مہم میں عام شہری سب سے زیادہ خطرے میں ہوں گے۔ ہم جانتے ہیں کہ خاندان یہاں سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور دولتِ اسلامیہ انھیں براہ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں پانی اور بجلی کی شدید قلت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’سارے شواہد اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان علاقوں میں پھنسے لوگ شدید خطرے میں ہیں۔‘
حکومت نے اس سال جنوری میں موصل کو دوبارہ حاصل کرنے کا اعلان کیا تھا، لیکن اس کے مغربی حصے پر پورے قبضے کی لڑائی اب بھی جاری ہے۔
اس حملے میں عراق کے ہزاروں فوجی، کرد پیشمرگہ جنگجو، سنی عرب قبائلی اور شیعوں کی شہری فوج کے جنگجو شامل ہیں۔ امریکی قیادت والے اتحاد کے لڑاکا طیارے اور فوجی مشیر ان کی مدد کر رہے ہیں۔
اسی مہینے امریکی قیادت والے اتحاد کے حکام نے اندازہ لگایا تھا کہ موصل میں شدت پسندوں کی تعداد ہزار سے کم رہ گئی ہے، جبکہ گذشتہ اکتوبر میں اس شہر اور اس کے آس پاس ان کی تعداد 3500 سے 6000 کے درمیان تھی۔
اقوام متحدہ کے مطابق، اس جنگ میں آٹھ ہزار سے زیادہ عام لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف ان لوگوں کے ہیں جنھیں ہسپتالوں میں لایا گیا۔
عراقی فوج ہلاکتوں کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کرتی، لیکن ایک امریکی جنرل نے بتایا تھا کہ مارچ کے آخر تک اس جنگ میں 774 عراقی سکیورٹی اہلکار مارے گئے تھے اور 4600 زخمی ہوئے تھے۔
اس جنگ کی وجہ سے پانچ لاکھ 80 ہزار سے زیادہ عام شہری اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ عراقی انتظامیہ کے مطابق ان میں سے چار لاکھ 19 ہزار مغربی موصل سے ہیں۔
No comments:
Post a Comment