Saturday 6 May 2017

S.C OF INDIA IS EXAMINING : WHY MUSLIM WOMEN TREATED DIFFERENTLY IN DIVORCE- 5 JUDGES OF DIFFERENT FAITH

ACTION RESERACH OPINION: FORM OF ISLAMIC PRACTICES FAITH IS AS MANY AS MUSLIMS UNDER TARKA FAITH AND THEIR BREAD AND BUTTER. SHOULD S.C OF INDIA STUDY THE SUBJECT AT LARGE IN VARIOUS ISLAMIC COUNTRIES, E.G. PAKISTAN, BANGLADESH, IRAN, AND LIKEWISE ISLAMIC CULTURS, BUT SHOULD BE AT PAR WITH ISLAMIC SOCIETY FOR CULTURAL MIX MARRIAGES.  


THIS FORUM WILL KEEP PARTICIAPTING FOR RATIONALITY OF FAITH FOLLOWERS, EMANCIPATION OF MUSLIM WOMEN SHOULD BE AT PAR, EVOLUTION OF LOGIC IS VARIABLE WITH TIME (NOT CONSTANT).  HUMAN MIND IS ADOPTING AND PRACTISING IN DECISION MAKING, FAITH DID NOT DISCOVER THE LOGIC ALGEBRA, REMEMBER SOCRATES VS CLERGY.   
***** 
Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39830157

مسلم خواتین کے ساتھ تفریق کیوں؟




سپریم کورٹتصویر کے کاپی رائٹAFP

انڈیا کا سپریم کورٹ مسلمانوں میں زبانی طلاق اور ایک ہی بار میں تین طلاق دینے کے سوال پر آئندہ ہفتے سے سماعت شروع کر رہا ہے۔ بھارت کے مسلمانوں میں بڑے پیمانے پر غربت اور تعلیم کی کمی کے باوجود طلاق کی شرح دوسری برادریوں کے مقابلے نسبتاً کم رہی ہے۔
لیکن روزی روٹی کی تلاش میں گزرے عشروں میں بڑے پیمانے پر حجرت، ٹی وی سیریلوں کے ایکسپوژر، زندگی کی پیچیدگیوں اور بدلتی ہوئی معاشرتی قدروں نے انسانی رشتوں کو بھی شدت سے متاثر کیا ہے۔ طلاق کی شرح جو چند عشرے پہلے تک مسلمانوں میں کم تھی اب وہ نہ صرف تیزی سے بڑھ رہی ہے بلکہ اب یہ عملی طور پر مردوں کے حق میں ایک طرفہ ہو چکی ہے۔
چند عشرے قبل طلاق ایک طویل عمل ہوا کرتا تھا اور آخری وقت تک شادی بچانے کی کوششیں ہوتی تھیں۔ معاشرے کے بزرگ شامل ہوتے تھے۔ جب کوئی راستہ نہیں بچتا تھا تو پھر عموماً اتفاق رائے سے طلاق دی جاتی تھی۔
آج کے دور میں فرد کی آزادی بڑھ گئی ہے، وہ اب سماج کا اجتما‏عی طور پر تابع نہیں ہے۔ فرد کی ضرورت، پسند اور حالات، زندگی کے فیصلوں کا تعین کرتے ہیں۔ بھارت میں صرف مسلمان ایک ایسی برادری ہے جہاں زبانی طلاق کا چلن ہے۔ شوہر اپنی بیوی کو کبھی بھی زبانی طلاق دے سکتا ہے۔
انڈیا میں مسلمانوں کے شادی بیاہ کے مسائل 1937 کے شریعت قانون کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ 1972 میں بعض مسلم مذہبی تنظیموں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نام کی ایک غیر سرکاری تنظیم تشکیل دی۔ ان تنظیمون نے اس غیر منتخب ادارے میں اپنے نمائندے نامزد کیے اور اسے پورے ملک کے مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ قرار دیا۔ ابتدا میں یہ ادارہ مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں سرگرمی کے ساتھ ملوث رہا۔ مسلم پرسنل لا بورڈ مسلکی اختلافات، سیاسی عزائم اور اپنے قدامت پسندانہ اور فرسودہ خیالات کے سبب بالآخر پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ اس ادارے کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہ مسلمانوں کے لیے ایک متفقہ نکاح نامہ یا طریقہ طلاق تک طے نہ کر سکا۔
حکومت یا ملک کی عدالتوں نے جب بھی کوئی اصلاحی قدم اٹھانے کی کوشش کی اس خود ساختہ ادارے نے اس کی مخالفت کی ہے۔ خواہ وہ نابالغ بچیوں کی شادی کو غیر قانونی قرار دینے کا قانون ہو، ایک سے زیادہ شادیوں کا سوال ہو یا پھر زبانی طلاق اور نان و نفقہ کا سوال ہو یا یونیفارم سول کوڈ، مسلم پرسنل لا بورڈ ہر جگہ مخالفت کرتا نظر آئے گا۔



طلاقتصویر کے کاپی رائٹAFP

اب جب سپریم کورٹ زبانی طلاق اور کئی شادیوں کے مسائل پر غور کر رہا ہے تو یہ ادارہ بجائے ایک بہتر اسلامی اور جمہوری حل تجویز کرنے کے مسلمانوں میں یہ بھرم پیدا کرنے کوشش کر رہا ہے جیسے عدالت اور حکومت اسلامی قوانین میں دخل دینے کی کوشش کر ہی ہے۔
ملک میں 2011 کی مردم شماری میں 13 لاکھ 20 ہزار طلاق درج کیے گئے تھے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق مسلم خواتین میں طلاق کی شرح ہندوؤں کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ تھی۔ مسلم خواتین کے طلاق کی شرح پانچ اعشاریہ چھ تین فیصد تھی جبکہ ہندوؤں میں یہ محض دو اعشاریہ چھ تھی۔
مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'بھارتیہ مسلم مہیلا آندولن' نے چند مہینے پہلے ایک ملک گیر سروے کیا تھا۔ اس سروے میں اقتصادی طور پر غریب طبقے کی 4710 خواتین سے بات کی کئی تھی۔ ان میں 525 خواتین مطلقہ تھیں۔ یہ تعداد 11 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ تھی ان میں 78 فیصد عورتوں کو ان کے شوہروں نے ایک طرفہ زبانی طلاق دیا تھا۔
عدالت عظمیٰ پہلی بار طلاق اور کئی شادیوں کے اہم سوال کا مفصل جائزہ لے رہی ہے۔ وہ اس معاملے میں اسلامی قوانین کے کئی ماہرین سے مدد بھی لے گی۔ لکھنؤ میں خواتین کی تنظیم 'تحریک' کی سربراہ نائش حسن کہتی ہیں یہ خواتین کے حقوق کے لیے بہت اہم گھڑی ہے۔
مسلم پرسنل لا بورڈ بعض مذہبی رہنماؤں کی ایک خود ساختہ تنظیم ہے۔ یہ کوئی منتخب جمہوری ادارہ نہیں ہے جو ملک کے 18 کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کر سکے۔ مسلمانوں میں زبانی طلاق، حلالہ اور مینٹینینس کا موجودہ چلن یقیناً ‏‏مسلم خواتین کے خلاف ایک منظم تفریق ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سپریم کورٹ ان اسلامی ملکوں کے قوانین کی روشنی میں جہاں اصلاحات کی گئی ہیں کوئی حتمی فیصلہ کرے۔ بھارت ایک جمہوری ملک ہے اور جمہوری اصولوں کے تحت کسی بھی طبقے کے ساتھ تفریق ملک کے آئین کی خلاف ورزی ہے۔

**** 

Source: http://www.bbc.com/urdu/regional-39881056

تین طلاقیں، پانچ جج اور مذاہب بھی پانچ

انڈین سپریم کورٹتصویر کے کاپی رائٹPTI
Image captionسپریم کورٹ کی آئینی بینچ فوری تین طلاق کے معاملے پر سماعت کر رہی ہے
سپریم کورٹ کے کسی بھی فیصلے کے بارے میں کچھ بھی کہتے ہوئے ذرا ڈر ہی لگتا ہے کہ کہیں انجانے میں کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے، آجکل گرمی بہت زیادہ ہے اور اسی ہفتے عدالت عظمیٰ نے کولکتہ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کرنن اور مفرور بزنیس مین وجے مالیا کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا ہے۔
جسٹس کرنن جیل جائیں گے اور اور وجے مالیا کو ابھی سزا سنائی جانی باقی ہے۔
اس لیے ذرا احتیاط۔ لیکن رہا بھی نہیں جاتا کیونکہ مسئلہ فوری تین طلاق کا ہے اور عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس سے انڈیا میں ہر مسلمان کی زندگی براہ راست متاثر ہوگی۔ یا تو مسلمان مرد پہلے کی سی آسانی سے طلاق دیتے رہیں گے یا ہر کام کو آسان بنانے کے اس ڈیجیٹل دور میں طلاق 'ریڈ ٹیپ' کا شکار ہوجائے گی!
لیکن یہ سنجیدہ مسئلہ ہے اور بات مساوات کی ہے۔ عورتوں اور مردوں کے حقوق برابر ہیں یا نہیں اور ہونے چاہئیں یا نہیں، یا یہ تنازع اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی کے دائرے میں آتا ہے؟ دونوں ہی کی ضمانت دستور ہند میں دی گئی ہے۔
انڈین سپریم کورٹتصویر کے کاپی رائٹAFP
بات ذرا پیچیدہ بھی ہے اور متنازع بھی، عدالت میں آئین کا ذکر تو ہوگا ہی لیکن ساتھ ہی معزز جج قرآن و حدیث کی تفسیر بھی سنیں گے۔ اور جنتا اس فیصلے کو یاد رکھا جائے گا شاید اتنا ہی فیصلہ سنانے والی آئینی بنچ کو بھی جس میں پانچ سینیئر جج شامل ہیں، اور پانچوں کا مذہب الگ ہے!
طلاق کے مسئلے تو بہت مرتبہ عدالت میں پہنچے ہوں گے، لیکن کیا امکان ہے کہ دنیا کی کسی بھی عدالت میں کبھی کوئی ایسی بنچ بنائی گئی ہوگی جس میں پانچ مذاہب کو نمائندگی حاصل ہو؟ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اور پارسی!
چیف جسٹس جے ایس کھہر سکھ ہیں، جسٹس کیورئن جوزف عیسائی ہیں، جسٹس آر ایف ناریمن پارسی، جسٹس یو یو للت ہندو اور جسٹس عبد النذیر مسلمان ہیں۔
بنچ چیف جسٹس تشکیل دیتے ہیں، یہ انھیں کا اختیار ہے۔ اب دو باتیں ہوسکتی ہیں: یا تو یہ محض اتفاق ہے، یا انھوں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔
سپریم کورٹ میں کافی 'ویرائٹی' موجود ہے، اس لیے یہ اتفاق بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر دونوں آپشنز میں سے ایک کو 'لاک' کرنا ہو تو میں دوسرے کا انتخاب کروں گا۔

انڈیا میں طلاق

طلاق، خواتینتصویر کے کاپی رائٹAFP
Image captionانڈیا میں مسلمانوں میں فوری تین طلاق کا مسئلہ کافی دنوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے
اب بات ذرا خطرے کے دائرے میں آجاتی ہے اور مجھے احساس ہے کہ دہلی میں درجہ حرارت 44 ڈگری سیلسئس پار کررہا ہے!
اگر چیف جسٹس نے پانچ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ججوں کا دانستہ طور پر انتخاب کیا ہے تو پھر لگتا کہ اس فیصلے میں ایک واضح پیغام بھی ہے، یا احتیاطاً یوں کہیے کہ پیغام ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ ایک ایسے مسئلے پر فیصلہ سنانے والی بنچ، جسے مسلمانوں کا ایک حلقہ اپنے مذہبی امور میں مداخلت مانتا ہے، کسی ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے ججوں پر مشتمل نہیں تھی ۔۔۔
ماناجاتا ہے کہ ججوں کے ذاتی نظریات اور ان کی پسند ناپسند ان کے فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اور وہ یہ حلف بھی اٹھاتے ہیں کہ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے وہ صرف دستور ہند کی پاسداری کریں گے۔
لیکن قانون کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ایسا لگنا بھی چاہیے کہ انصاف کیا جارہا ہے۔
سپریم کورٹ کی بنچ گرمیوں کی چھٹیوں میں روزانہ اس کیس کی سماعت کرےگی۔ جسٹس کھہیر جلد ہی ریٹائر ہونے والے ہیں اور یہ ان کے طویل کریئر کا سب سے اہم اور مشہور کیس ثابت ہوسکتا ہے۔
فیصلہ جو بھی ہو، ایک نظیر قائم ہوگی۔

انڈیا میں تین طلاقوں کے تنازع پر سپریم کورٹ میں سماعت


**** 
SOURCE: http://www.bbc.com/urdu/india-39884144
انڈیا میں تین طلاقتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionانڈیا میں مسلمان مرد اپنی بیوی کو منٹوں میں، صرف تین دفعہ 'طلاق' کا لفظ کہہ کر طلاق دے سکتا ہے۔
انڈیا کی عدالت عظمی نے تین طلاقوں کے متنازع موضوع پر دائر کی گئی کئی پیٹیشنز کی باضابطہ سماعت شروع کر دی ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ وہ اس دعوے پر غور کریں گے کہ تین طلاقیں کس حد تک مذہب کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔
انڈیا چند ایسے ممالک میں شامل ہے جہاں ایک مسلمان مرد اپنی بیوی کو منٹوں میں، صرف تین دفعہ 'طلاق' کا لفظ کہہ کر طلاق دے سکتا ہے۔ تاہم خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک معتصبانہ رویہ ہے جس سے خواتین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔
کئی مسلم تنظیموں نے اپنے مذہبی معاملات میں عدالت کی دخل اندازی کی مخالفت کی ہے۔ عدالت کے اس اقدام کو وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت حاصل ہے۔
اس حساس موضوع کی سماعت کے لیے جو بینچ تشکیل دیا گیا ہے اس کے پانچ جج صاحبان کا تعلق پانچ مختلف مذاہب سے ہے، جن میں ہندو، سِکھ، عیسائی، پارسی اور مسلمان شامل ہیں۔
بینچ نے مسلمان خواتین اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم گروہوں کی طرف سے دائر کی گئی کئی درخواستوں کو ملا کر اس معاملے کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلمان انڈیا کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ ان کی آبادی ایک سو پچپن ملین ہے اور ان کی شادیاں اور طلاق جیسے معاملات مسلم پرسنل لا کے تحت طے کیے جاتے ہیں، جو کہ بظاہر شریعت پر مبنی ہے۔
شاعرہ بانو
Image captionشاعرہ بانو کے شوہر نے انہیں خط کے ذریعے طلاق دی تھی
درخواست گزاروں میں سے ایک شاعرہ بانو ہیں جنہوں نے گزشتہ سال بی بی سی سے بات کی تھی۔ پینتیس سالہ شاعرہ بانو اکتوبر دو ہزار پندرہ میں اپنے دو بچوں سمیت اپنے والدین سے ملنے اتراکھنڈ گئی تھیں جب انہیں الہ باد میں مقیم اپنے شوہر کی طرف سے ایک خط ملا جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ شاعرہ بانو کو طلاق دے رہے ہیں۔ تب سے وہ اپنے شوہر سے رابطہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے لیے بہت پریشان ہیں کیوں کہ اس سے ان کی زندگی خراب ہو رہی ہے۔ پچھلے سال فروری میں شاعرہ بانو نے عدالت عظمی میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں تین طلاقوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
تین طلاقوں کا رواج دہائیوں سے چل رہا ہے تاہم اس طرح کی یکطرفہ، فوری طلاق کا شریعہ یا قرآن میں کہیں ذکر نہیں۔ اسلامی علما کہتے ہیں کہ قرآن طلاق کے بارے میں بہت واضح ہے۔ طلاق دینے کے لیے کم سے کم تین ماہ کا وقت مقرر ہے تاکہ اس دوران میاں بیوی اس فیصلے کے بارے میں ٹھنڈے دل سے سوچ سکیں، اور ان میں مفاہمت کروائی جا سکے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں، جن میں پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں، تین طلاقوں پر پابندی ہے۔
حالیہ عرصے میں انڈیا میں کئی مسلم شوہروں نے خطوط، فون، یہاں تک کہ ایس ایم ایس، سکائپ اور فیس بک کے ذریعے بھی اپنی بیویوں کو طلاق دی ہے۔



No comments:

Post a Comment