Source: http://www.bbc.com/urdu/entertainment-39973408
’راتوں رات مولویوں کو بلا کر فلم نکاح دکھائی‘
جب نکاح عورت کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا تو طلاق کیسے ہو سکتی ہے؟
یہ ایک ایسا سوال تھا جس نے مصنفہ اچلا ناگر کو تین طلاق جیسے مسئلے پر بھارت کی ایک سپر ہٹ فلم 'نکاح' کی کہانی لکھنے پر مجبور کر دیا تھا۔
نکاح سے پہلے فلم کا نام تھا 'طلاق طلاق طلاق'
تقریباً 35 سال پہلے بننے والی اس فلم پر اس وقت اتنے ہی تنازعات تھے جتنے آج ہیں۔ اسی فلم سے پاکستانی اداکارہ سلمیٰ آغا نے بالی وڈ میں اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو راج ببر تھے۔
فلم میں دکھایا گیا تھا کہ کس طرح تین طلاقیں ایک عورت کی زندگی میں طوفان لے آتی ہیں۔ اگرچہ اس فلم کی سٹار کاسٹ مضبوط نہیں تھی لیکن اس کے باوجود فلم سپر ہٹ رہی۔
1982 میں بی آر چوپڑا کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم نکاح کا نام پہلے 'طلاق، طلاق، طلاق' رکھا گیا تھا۔ لیکن طلاق نام سے پہلے ہی کسی صنعت کار نے اپنی فلم کو رجسٹر کروا رکھا تھا۔
فلم کی مصنفہ اچلا ناگر بتاتی ہیں کہ کس طرح اداکار افتخار نے بھی اس پر مذاق کیا۔ 'وہ بولے کہ اچھا ہوا چوپڑا صاحب آپ نے فلم کا نام 'طلاق، طلاق، طلاق' نہیں رکھا نہیں تو ہم بیوی سے کہتے چلو 'طلاق، طلاق، طلاق' دیکھنے چلتے ہیں تو ہماری تو فلم دیکھنے سے پہلے ہی طلاق ہو جاتی۔'
اچلا نے بتایا کہ فلم کسی مذہب کو ذہن میں رکھ کر نہیں بنائی گئی تھی بلکہ اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ عورت کو بھی انسان سمجھا جائے۔ لیکن پھر بھی تنازع اٹھ ہی گیا۔
'فلم ریلیز ہونے کے چوتھے دن ہی کسی نے مسلم اکثریتی علاقے بھنڈی بازار میں پوسٹر لگا دیے کہ اس فلم میں مذہب کے خلاف باتیں کی گئی ہیں۔ فتوے جاری کر دیے گئے تھے۔ تب راتوں رات مخالفت کرنے والے علما کو بلا کر فلم دکھائی گئی تھی۔'
انڈیا، پاکستان میں فلم چھا گئی تھی
فلم ناقد اور سینیئر صحافی ضیا السلام کہتے ہیں کہ 'بھارت ہی نہیں پاکستان میں بھی فلم کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ کئی مقامات پر اس کی ریلیز روک دی گئی تھی۔ کچھ علما کا کہنا تھا کہ اس میں طلاق تو دکھائی لیکن حلالہ کے بارے میں نہیں بتایا گیا۔'
اچلا ناگر کا کہنا ہے کہ فلم ریلیز ہونے کے بعد انڈیا ہی نہیں پاکستان کی کئی خواتین نے بھی ان سے اس کہانی کو لکھنے کے لیے شکریہ کہا تھا۔
اچلا نے بتایا کہ ایک مسلمان عورت نے بتایا کہ ان کے پروفیسر شوہر نے انہیں محض اس لیے تین بار طلاق بول کر رشتہ توڑ دیا تھا کیونکہ وہ انھیں وقت پر کھانا نہیں دے سکی تھیں۔ ایک دوسری عورت کو ان کے شوہر نے فون پر طلاق دے دی تھی۔ وہ نکاح دیکھنے کے بعد اپنا درد اس فلم میں دیکھ رہی تھیں۔
تین طلاق کے خلاف قانونی لڑائی لڑنے والی سپریم کورٹ کی وکیل فرح فیض کے ماموں عمر خیام نے بی آر چوپڑا کی فلم نکاح کے لیے مذہبی امور کے مشیر کے طور پر کام کیا تھا۔ فرح فیض نے جنوری 2016 میں تین طلاق کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی تھی۔
فرح فیض کہتی ہیں 'اس وقت میں آٹھ سال کی تھی۔ اس وقت فلم کے خلاف تقریباً 20 مقدمے ہوئے تھے۔ 15 سے 20 دارالفتاویٰ کے دیے فتوے تو میرے ماموں خود جمع کر لائے تھے۔ ہمارے گھر میں تب ہی سے اس معاملے پر بحث ہوتی آ رہی ہے۔ میں آج اس مسئلے کے خلاف کھڑی ہوں تو اس کی وجہ وہی لوگ ہیں جن سے لڑتے ہوئے میں نے اپنے ماموں کو دیکھا۔'
No comments:
Post a Comment