ORIGINATING Resource: https://be4gen.wordpress.com/2011/07/29/1500-half-widows-%E2%80%93-indian-held-kashmir/
1500 HALF WIDOWS – INDIAN HELD KASHMIR
1500 HALF WIDOWS – INDIAN HELD KASHMIR
12:40 GMT 17:40 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعرات 28 جولائ
ریاض مسرور
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
ریاض مسرور
بی بی سی اُردو ڈاٹ کام، سرینگر
بھارتی زیرانتظام کشمیر واحد خطہ ہے جہاں بیوہ عورتوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جن کے خاوند کی موت ہوگئی ہے اور دوسری وہ جن کے خاوند لاپتہ ہو ہیں۔ سالہاسال تک اپنے خاوند کا انتظار کرنے والی ان خواتین کو یہاں ’ہاف وِڈوز‘ یعنی آدھی بیوہ کہتے ہیں۔
لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم ایسوسی ایشن آف ڈِس اپیئرڑ پرسنز یا اے پی ڈی پی نے جمعرات کو ہاف وِڈوز پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ڈیڑھ ہزار ایسی خواتین ہیں جن کے خاوند سکیورٹی فورسز کی حراست میں ہیں یا لاپتہ ہوگئے ہیں اور انہیں برسوں سے ان کا سراغ نہیں مل رہا۔
سکینہ، یاسمین اور ممتاز ایسی ہی سینکڑوں خواتین میں سے ہیں جو ہر ماہ سرینگر میں دھرنا دے کر دنیا کو اپنی بے بسی کی یاد دلاتی ہیں۔
پینتیس سالہ یاسمین کہتی ہیں: ’اگر حکومت صاف صاف کہے کہ میرا خاوند زندہ نہیں ہے تو میں اپنے بچوں کو کہہ دیتی کہ ان کے والد نہیں رہے۔‘
اے پی ڈی پی نے یہ رپورٹ کئی غیرملکی اداروں اور دانشوروں کے تعاون سے تیار کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کشمیر میں فوجی اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پانچ سو مسلح شدت پسند سرگرم ہیں جبکہ ان کے مقابلے چار سے ساڑھے سات لاکھ تک بھارتی فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں آٹھ ہزار افراد لاپتہ ہیں اور پچھلے بائیس برس میں ستّر ہزار افراد مارے گئے۔
اے پے ڈی پی کے سرپرست اعلیٰ پرویز امروز نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ یہ رپورٹ حکومت کو پیش کریں گے۔ اس رپورٹ میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ خواتین کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ تشدد کے خلاف قانون سازی کی جائے اور اس تشدد کی شکار خواتین کو معاوضہ دیا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا ’ڈیڑھ ہزار ہاف وِڈوز کا مطلب یہ ہے ہم نے ڈیڑھ ہزار کیسوں کی نشاندہی کی ہے۔ کئی خواتین نے تو زندگی کے ساتھ سمجھوتہ کرکے انصاف کی جدوجہد ترک کردی ہے۔‘
واضح رہے چند ماہ قبل اے پی ڈی پی نے وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کو گمشدگیوں سے متعلق بھی رپورٹ پیش کی تھی۔ اس میں لاپتہ افراد کی تعداد چار ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔
Advertisemen
No comments:
Post a Comment