Thursday, 7 June 2018

IND: GOLDEN TEMPLE OPERATION BY INDRA CONGRESS CRUSHING SIKH MILITANCTY- UNFORGETABLE


Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44404907

آپریشن بلیو سٹار جسے سکھ کبھی نہیں بھولے

اکال تختتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسکھوں کے سب سے مقدس مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل میں موجود اکال تخت کو 1984 کے فوجی آپریشن میں بہت نقصان پہنچا تھا
یہ 1984 کی بات ہے جب میں ابھی کالج میں ہی تھا۔ اتنے زیادہ ٹی وی چینل نہیں تھے جتنے اب ہیں بلکہ پی ٹی وی کے علاوہ صرف امرتسر ٹی وی ہی لاہور میں دیکھا جا سکتا تھا اور وہ بھی اس وقت جب موسم صاف ہو۔ نہ ہی خبر حاصل کرنے کے لیے کوئی سوشل میڈیا تھا اس لیے اچھی اور بری خبریں دھیرے دھیرے ہی کانوں تک پہنچا کرتی تھیں۔
گھر میں امرتسر ٹی وی آتا تھا لیکن یہ خبر وہاں سے نہیں ملی۔ یہ خبر ملی پاکستانی اخباروں، پی ٹی وی اور ریڈیو سے کہ سکھوں کے سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر تین جون 1984 کو بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے اور اس میں کئی سکھ مارے گئے ہیں۔ اس وقت یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ گولڈن ٹیمپل اور اکال تخت ایک ہی عمارت کا نام ہے یا یہ دو الگ الگ عمارتیں ہیں۔ اس فوجی آپریشن کو ’آپریشن بلیو سٹار‘ کا نام دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیئے
بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں سکھ برادری کے ایک رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ نے وہاں کئی برسوں سے ڈیرے جمائے ہوئے تھے اور وہ پہلے اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے علیحدہ ملک کا نعرہ لگایا تو دوستی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔
بھنڈراوالہ بس گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں بیٹھے کسی ایسے دن کا انتظار کر رہے تھے جب بھارتی فوج غلطی کرے۔ اور تین جون کو اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی سے غلطی ہو گئی۔ فوج کو حملے کا حکم ہوا اور پھر بھارتی توپخانے اور ٹینکوں سے حملہ کر دیا۔ بڑا خون خرابہ ہوا۔ اگرچہ انڈیا نے پنجاب میں کرفیو لگایا لیکن بین الاقوامی میڈیا خصوصاً بی بی سی گولڈن ٹیمپل پر حملے کی رپورٹیں مسلسل نشر کر رہا تھا۔ مارک ٹلی اس رپورٹنگ میں سرِ فہرست تھے۔
اگر میں آج سوچوں تو یاد آتا ہے کہ اس دور میں انڈیا اتنے زیادہ قریب نہیں تھا جتنا اب میڈیا اور 'ایکسپوژر' کی وجہ سے ہو گیا ہے۔ 'دشمن' بہت دور تھا اور اس کے متعلق زیادہ خبر بھی نہیں تھی۔
گولڈن ٹیمپلتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionشدت پسندوں کا صفایا کرنے کے بعد فوج گولڈن ٹیمپل میں
مجھے یاد ہے کہ میری اور میرے جیسے بیشتر پاکستانیوں کی ہمدردیاں فوراً سکھ برادری سے ہو گئیں اور کم از کم پاکستان میں یہ سمجھا جانے لگا کہ کیونکہ اب بھارتی فوج نے سکھوں کے 'مکہ' پر حملہ کیا ہے اس لیے سکھ اسے کبھی نہیں بھولیں گے اور اب وہ ہندوستان سے تو کم از کم الگ ہو جائیں۔ ہم ناتجربہ کار اور نادان نوجوان تھے۔
گولڈن ٹیمپل میں مزید پانچ دن خون خرابہ ہوتا رہا اور جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ اور ان کے بہت سے ساتھی مارے گئے۔
سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد چار سو سکھ اور تراسی فوجی بتائی گئی لیکن سکھ یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔
اگرچہ گولڈن ٹیمپل کو اکا دکا گولیوں کے نشانات کے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا لیکن اکال تخت اور اس سے ملحق عمارتوں کو بموں اور بھاری اسلحہ سے کیے گئے حملے کی وجہ سے بھاری نقصان پہنچا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) کلدیپ سنگھ برارتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionآپریشن بلیو سٹار کے کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ جنرل (ر) کلدیپ سنگھ برار پر لندن میں ایک سکھ گروہ نے چاقو سے حملہ کر کے ان کا گلہ کاٹنے کی کوشش کی لیکن وہ اس حملے میں بچ گئے۔ ان کے گلے پر 12 انچ لمبا زخم آیا
ہلاکتوں کے بعد سوگ تھا، ہر طرف سوگ۔ جنھوں نے قبضہ کیا اور مارے گئے ان میں بھی سوگ اور جنہوں نے حملہ کیا اور قبضہ چھڑایا ان میں بھی سوگ۔ لیکن سب سے زیادہ سوگ عام سکھ برادری میں تھا جسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس کی طرف داری کرے۔ ایک غصہ تھا جو دبا ہوا تھا۔ یہ غصہ چھ ماہ بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی پر نکلا جنھیں ان کی ہی سکھ محافظوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا اور گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کا بدلہ لیا۔ لیکن اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد پورے ملک خصوصاً دلی میں سکھ مخالف مظاہرے ہوئے جس میں کم از کم تین ہزار سکھ ہلاک کر دیے گئے۔
سنہ 2012 میں اس آپریشن کی بازگشت ایک مرتبہ پھر لندن میں سنی گئی جب چند سکھ نوجوانوں نے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی، انڈین فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ برار پر چاقو سے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل واپس آ رہے تھے۔ کلدیپ سنگھ برار آپریشن بلیو سٹار کے کمانڈنگ آفیسر تھے اور انھیں اس آپریشن کا آرکیٹکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جنرل (ر) برار کی گردن پر ایک گہرا زخم آیا لیکن وہ جان لیوا نہیں تھا۔ وہ جلد ہی صحت یاب ہو گئے۔ اس حملے کے سلسلے میں برطانیہ میں درجن بھر سکھوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں پانچ کو جن میں ایک عورت بھی شامل تھی حملہ اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئیں۔
میں جب 1997 میں اپنی بیوی کے ساتھ امرتسر گیا تو میرا ایک سکھ دوست ہمیں گولڈن ٹیمپل دکھانے لے گیا۔ جب وہ اکال تخت کی عمارت کے سامنے آیا تو اس نے سر جھکا کر کہا یہ ہے ہماری شرمندگی کی نشانی۔ کم از کم اس وقت تک تو وہ عمارت اسی طرح ٹوٹی ہوئی موجود تھی اور ہر آنے والے سکھ کو یہ یاد دلاتی تھی کہ جون 1984 میں کیا ہوا تھا۔
آپریشن بلیو سٹارتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionسکھ ابھی بھی 1984 میں ہونے والے آپریشن بلیو سٹار کو نہیں بھولے

متعلقہ عنوانات

No comments:

Post a Comment