Source: https://www.bbc.com/urdu/regional-44404907
آپریشن بلیو سٹار جسے سکھ کبھی نہیں بھولے
یہ 1984 کی بات ہے جب میں ابھی کالج میں ہی تھا۔ اتنے زیادہ ٹی وی چینل نہیں تھے جتنے اب ہیں بلکہ پی ٹی وی کے علاوہ صرف امرتسر ٹی وی ہی لاہور میں دیکھا جا سکتا تھا اور وہ بھی اس وقت جب موسم صاف ہو۔ نہ ہی خبر حاصل کرنے کے لیے کوئی سوشل میڈیا تھا اس لیے اچھی اور بری خبریں دھیرے دھیرے ہی کانوں تک پہنچا کرتی تھیں۔
گھر میں امرتسر ٹی وی آتا تھا لیکن یہ خبر وہاں سے نہیں ملی۔ یہ خبر ملی پاکستانی اخباروں، پی ٹی وی اور ریڈیو سے کہ سکھوں کے سب سے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر تین جون 1984 کو بھارتی فوج نے حملہ کر دیا ہے اور اس میں کئی سکھ مارے گئے ہیں۔ اس وقت یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ گولڈن ٹیمپل اور اکال تخت ایک ہی عمارت کا نام ہے یا یہ دو الگ الگ عمارتیں ہیں۔ اس فوجی آپریشن کو ’آپریشن بلیو سٹار‘ کا نام دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیئے
بعد میں یہ بھی پتہ چلا کہ گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں سکھ برادری کے ایک رہنما جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ نے وہاں کئی برسوں سے ڈیرے جمائے ہوئے تھے اور وہ پہلے اس وقت کی بھارتی وزیرِ اعظم کے دوستوں میں شمار ہوتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے علیحدہ ملک کا نعرہ لگایا تو دوستی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔
بھنڈراوالہ بس گولڈن ٹیمپل کمپلیکس میں بیٹھے کسی ایسے دن کا انتظار کر رہے تھے جب بھارتی فوج غلطی کرے۔ اور تین جون کو اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی سے غلطی ہو گئی۔ فوج کو حملے کا حکم ہوا اور پھر بھارتی توپخانے اور ٹینکوں سے حملہ کر دیا۔ بڑا خون خرابہ ہوا۔ اگرچہ انڈیا نے پنجاب میں کرفیو لگایا لیکن بین الاقوامی میڈیا خصوصاً بی بی سی گولڈن ٹیمپل پر حملے کی رپورٹیں مسلسل نشر کر رہا تھا۔ مارک ٹلی اس رپورٹنگ میں سرِ فہرست تھے۔
اگر میں آج سوچوں تو یاد آتا ہے کہ اس دور میں انڈیا اتنے زیادہ قریب نہیں تھا جتنا اب میڈیا اور 'ایکسپوژر' کی وجہ سے ہو گیا ہے۔ 'دشمن' بہت دور تھا اور اس کے متعلق زیادہ خبر بھی نہیں تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میری اور میرے جیسے بیشتر پاکستانیوں کی ہمدردیاں فوراً سکھ برادری سے ہو گئیں اور کم از کم پاکستان میں یہ سمجھا جانے لگا کہ کیونکہ اب بھارتی فوج نے سکھوں کے 'مکہ' پر حملہ کیا ہے اس لیے سکھ اسے کبھی نہیں بھولیں گے اور اب وہ ہندوستان سے تو کم از کم الگ ہو جائیں۔ ہم ناتجربہ کار اور نادان نوجوان تھے۔
گولڈن ٹیمپل میں مزید پانچ دن خون خرابہ ہوتا رہا اور جرنیل سنگھ بھنڈراوالہ اور ان کے بہت سے ساتھی مارے گئے۔
سرکاری طور پر ہلاکتوں کی تعداد چار سو سکھ اور تراسی فوجی بتائی گئی لیکن سکھ یہ تعداد ہزاروں میں بتاتے ہیں۔
اگرچہ گولڈن ٹیمپل کو اکا دکا گولیوں کے نشانات کے کوئی خاص نقصان نہیں ہوا لیکن اکال تخت اور اس سے ملحق عمارتوں کو بموں اور بھاری اسلحہ سے کیے گئے حملے کی وجہ سے بھاری نقصان پہنچا۔
ہلاکتوں کے بعد سوگ تھا، ہر طرف سوگ۔ جنھوں نے قبضہ کیا اور مارے گئے ان میں بھی سوگ اور جنہوں نے حملہ کیا اور قبضہ چھڑایا ان میں بھی سوگ۔ لیکن سب سے زیادہ سوگ عام سکھ برادری میں تھا جسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کس کی طرف داری کرے۔ ایک غصہ تھا جو دبا ہوا تھا۔ یہ غصہ چھ ماہ بعد اس وقت کی وزیرِ اعظم اندرا گاندھی پر نکلا جنھیں ان کی ہی سکھ محافظوں نے گولیاں مار کر ہلاک کیا اور گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کا بدلہ لیا۔ لیکن اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد پورے ملک خصوصاً دلی میں سکھ مخالف مظاہرے ہوئے جس میں کم از کم تین ہزار سکھ ہلاک کر دیے گئے۔
سنہ 2012 میں اس آپریشن کی بازگشت ایک مرتبہ پھر لندن میں سنی گئی جب چند سکھ نوجوانوں نے جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی، انڈین فوج کے لیفٹیننٹ جنرل کلدیپ سنگھ برار پر چاقو سے اس وقت حملہ کیا جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہوٹل واپس آ رہے تھے۔ کلدیپ سنگھ برار آپریشن بلیو سٹار کے کمانڈنگ آفیسر تھے اور انھیں اس آپریشن کا آرکیٹکٹ بھی کہا جاتا ہے۔ جنرل (ر) برار کی گردن پر ایک گہرا زخم آیا لیکن وہ جان لیوا نہیں تھا۔ وہ جلد ہی صحت یاب ہو گئے۔ اس حملے کے سلسلے میں برطانیہ میں درجن بھر سکھوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں پانچ کو جن میں ایک عورت بھی شامل تھی حملہ اور اس کی منصوبہ بندی کرنے کے جرم میں سزائیں سنائی گئیں۔
میں جب 1997 میں اپنی بیوی کے ساتھ امرتسر گیا تو میرا ایک سکھ دوست ہمیں گولڈن ٹیمپل دکھانے لے گیا۔ جب وہ اکال تخت کی عمارت کے سامنے آیا تو اس نے سر جھکا کر کہا یہ ہے ہماری شرمندگی کی نشانی۔ کم از کم اس وقت تک تو وہ عمارت اسی طرح ٹوٹی ہوئی موجود تھی اور ہر آنے والے سکھ کو یہ یاد دلاتی تھی کہ جون 1984 میں کیا ہوا تھا۔
No comments:
Post a Comment