Wednesday, 13 June 2018

CASUALTIES OF TRIBAL TRADITIONS AND HUMAN Posted on September 4, 2011


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/09/04/casualties-of-tribal-traditions-and-human/

CASUALTIES OF TRIBAL TRADITIONS AND HUMAN

CASUALTIES OF TRIBAL TRADITIONS AND HUMAN
(Sep 4, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/09/110904_tribal_areas_911_zs.shtml
01:56 GMT 06:56 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: اتوار 4 ستمبر
جانی نقصان سے روایات کی تباہی زیادہ اہم
دلاور خان وزیر – بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
امریکی شہر نیویارک میں دس برس قبل ہونے والے حملوں کا براہِ راست اثر اگر پاکستان کے کسی خطے پر پڑا تو وہ قبائلی علاقے تھے۔
ان حملوں کے ردعمل میں افغانستان میں امریکی کارروائی نے افغان سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے کی زندگی کو ہلا کر رکھ دیا اور یہاں کی روایات، رسم و رواج اور صدیوں پُرانا جرگہ نظام بری طرح متاثر ہوا۔
قبائلی علاقے نائن الیون سے پہلے پاکستان کے دوسرے علاقوں کے نسبت بُہت پُرامن سمجھے جاتے تھے۔ معاشرے میں تنازعات کے حل میں جرگہ اہم ترین کردار ادا کرتا تھا اور اس کے بنیادی ستون قبائلی عمائدین ہی تھے۔
قبائلی روایات کی تباہی زیادہ نقصان دہ: سنیے
تاہم افغانستان میں امریکی کارروائی کے بعد ان قبائلی علاقوں میں طالبان کے اثر و رسوخ میں تیزی سے اضافہ ہوا اور انہوں نے قبائلی سرداروں اور عمائدین کو چُن چُن کر ہلاک کیا۔ یہی نہیں بلکہ قبائلی عمائدین کے جرگوں پر خودکُش حملے بھی ہوئے جن میں دو سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور اب حال یہ ہے کہ جو قبائلی ملک بچ گئے وہ نہ تو سامنے آنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اس صورتحال پر بات کرنا چاہتے ہیں۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق چیف سیکرٹری سنگی مرجان محسود کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد قبائلی علاقوں کی دیرینہ روایات کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جن علاقوں میں مُسلح جنگجو طالبان موجود ہے ان کا اپنا طریقہ کار ہے اور ان کے طریقے قبائلی روایات کے مطابق نہیں اور جہاں فوج غالب ہے وہ بھی قبائلی روایات اور رواج کے پابند نہیں ہوتے اس لیے علاقے میں قبائلی روایات اور رواج کو کافی نقصان پہنچا ہے‘۔
اسی بارے میں افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رُستم شاہ مہمند کہتے ہیں کہ ’قبائلی علاقوں میں بڑوں اور چھوٹوں کا اپنا اپنا کردار تھا، جرگہ اور علاقائی ذمہ داریاں تھیں۔ معاشرے کے اندر بنا بنایا خود احتسابی کا عمل موجود تھا لیکن اب سب کُچھ ختم ہو کر رہ گیا ہے‘۔
افغانستان میں روسیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران قبائلی علاقہ جات میں مجاہدین کے ٹھکانے تھے۔ اس جدوجہد کے دوران خون تو افغانستان میں بہا لیکن پاکستان کے قبائلی علاقوں کے رہائشی اس جنگ سے مالی فوائد اٹھاتے رہے۔
تاہم نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی جنگ میں صورتحال ماضی کے برعکس تھی اور اس مرتبہ نہ صرف طالبان نے ان قبائل کا خون بہایا بلکہ ان کی وجہ سے لوگوں کی معاشی حالت بھی تباہ و برباد ہوگئی۔
رستم شاہ مہمند کا کنا ہے کہ ’سارا نظام ختم ہوگیا ہے اور لاکھوں لوگ بےگھر ہوگئے ہیں۔ گھر اُجڑ گئے۔گاؤں ختم ہوگئے، باغات ختم ہوگئے ہیں اور مارکیٹیں تباہ کردی گئیں۔ سکولز تباہ ہوگئے۔ قبائلیوں میں جو خوداعتمادی تھی وہ ختم ہوگئی اور وہ گداگر بن گئے ہیں۔ وہ کشکول لیے پھرتے ہیں۔ ان کی باعزت اور آبرومندانہ زندگی جو تھی وہ اب نہیں رہی‘۔
نائن الیون کے بعد پہلی دفعہ جب دو ہزار چار میں فوج نے جنوبی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا تو لاکھوں قبائلی نقل مکانی کر کے جنوبی وزیرستان کے اندر ہی پناہ گزین ہوگئے اور اس کے بعد تین دفعہ جنوبی وزیرستان کے علاقے محسود سے لاکھوں لوگوں نے فوجی آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ یہ فوجی آپریشن صرف جنوبی وزیرستان تک محدود نہ رہا بلکہ تمام قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف وقتاً فوقتاً فوجی آپریشن ہوتا رہا اور ساتھ ہی نقل مکانی کا بھی نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔
آج قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں لوگ پاکستان کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو چکے ہیں اور مبصرین کے خیال میں اس نقل مکانی کے نتیجے میں قبائلیوں کی نئی نسل اپنے روایتی اور علاقائی رسم و رواج سے دور ہو رہی ہے۔
نائن الیون حملوں کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون طیاروں کے حملے یہاں رہ جانے والے افراد کے لیے ایک مستقل خوف کی وجہ بن گئے ہیں۔ ایک سرکاری اندازے کے مطابق اب تک قبائلی علاقوں میں تین سو چوالیس ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں اب تک تین ہزار دو سو نوے افراد ہلاک ہوئے ہیں اور ہلاک ہونے والوں میں سے تین سو بیس سے زیادہ غیر مُلکی شدت پسند تھے۔
ان حملوں کی وجہ سے قبائل کی روایتی مہمان نوازی اور شادی بیاہ کی تقریبات بھی متاثر ہوئی ہیں اور وہ قبائلی جو پہلے مہمانوں کی آؤ بھگت کے لیے مشہور تھے اب مہمانوں سے بھی دور بھاگنے لگے ہیں۔
دس سال کے اس عرصے میں قبائلی معاشرے کی ثقافت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے اور وہ معاشرہ جہاں رباب، منگے، طبلہ اور ڈھول جیسے روایتی آلاتِ موسیقی بوڑھوں، جوانوں اور بچوں سب میں مقبول تھے طالبان کے خوف کی نذر ہو گیا ہے۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے حجرہ پروگراموں کے نامور گائیک امین گل آفریدی کا کہنا ہے کہ طالبان کے آنے کے بعد سب کُچھ ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’طالبان نے پشتو ثقافت کو بنیاد سے بگاڑ دیا ہے اور اب اس کا وجود ہی باقی نہیں رہا‘۔
امین گل کے مطابق طالبان نے اتنا خوف پھیلا دیا ہے کہ پروگرام کرنا تو دور کی بات آپ کسی کو یہ بھی نہیں بتا سکتے کہ آپ گائیک ہیں۔
مبصرین کا بھی یہی ماننا ہے کہ نائن الیون کے بعد قبائلی علاقوں میں جانی و مالی نقصان سے زیادہ نقصان دہ بات قبائلی روایات، رسم و رواج کی تباہی ہے کیونکہ اس سے قبائلی شناخت کے ختم ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment