CHINA AND OGAR INHABITANTS LONG HISTORY

CHINA AND OGAR INHABITANTS LONG HISTORY
(Aug 1, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2009/07/090706_xinjiang_answers_rza.shtml
12:02 GMT 17:02 PST 2011, آخری وقت اشاعت: پير 1 اگست
چین اور اوغر آبادی، طویل اختلافات کی تاریخ
چین کے سنکیانگ کے علاقے میں بھڑکنے والے فسادات کے پیچھے چین اور اس علاقے کی اوغر آبادی کے مابین اختلافات کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ بی بی سی کے اس سوالنامے میں سنکیانگ میں بسنے والے اوغر مسلمانوں کے بارے میں چند بنیادی حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
سوال: اوغر کون لوگ ہیں؟
جواب: اوغر مسلمان ہیں۔ گو ان کی زبان ترکی سے مماثلت رکھتی ہے لیکن لسانی اور ثقافتی اعتبار سے وہ خود کو وسط ایشیائی ریاستوں کے زیادہ قریب سمجھتے ہیں۔
صدیوں سے سنکیانگ کی معیشت کا دارومدار زراعت اور تجارت پر ہے، جس کا اظہار سلک روٹ پر واقع کاشغر جیسے مصروف شہروں سے ہوتا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں کچھ عرصے کے لیے اوغر آبادی نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا لیکن انیس سو اننچاس میں یہ علاقہ باقاعدہ طور پر کومیونسٹ چین کے مکمل کنٹرول لایا گیا۔
سرکاری سطح پر چین سنکیانگ کو جنوبی علاقے تبت کی طرز پر ایک خود مختار علاقہ بتاتا ہے۔
سوال: چین کو اوغر لوگوں سے کیسی تشویش ہے؟
جواب: چینی حکومت کا کہنا ہے اوغر عسکریت پسند ایک عرصے سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ایک پرتشدد تحریک چلا رہے ہیں۔ اس تحریک میں اوغر بمباری کے علاوہ سبوتاژ اور امن و عامہ کی صورتحال خراب کرنے جیسے حربے استعمال کرتے ہیں۔
امریکہ پر ستمبر دو ہزار ایک میں ہونے والے حملوں کے بعد چین مسلسل اوغر علیحدگی پسندوں پر القاعدہ کے ساتھ روابط کا الزام لگاتا رہا ہے۔ چین کے مطابق اوغر علیحدگی پسند افغانستان میں موجود مسلمان جنگجؤں سے نظریاتی اور مسلح ٹریننگ بھی حاصل کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان الزامات کی حمایت میں چین نے کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔
نومبر دو ہزار ایک میں افغانستان پر امریکی حملے کے دوران وہاں سے بیس اوغر پکڑے گئے تھے۔ گو ان پر ابھی تک باقاعدہ فرد جرم عائد نہیں کی گئی لیکن وہ پچھلے چھ سال سے گوانتانامو بےمیں قید ہیں۔ دو ہزار چھ میں ان میں سے پانچ اوغر البانیہ نے قبول کر لیے، چار کو اس سال جون میں برموڈا میں آباد کر دیا گیا جبکہ باقی عنقریب بحرالکاہل کے جزیرے پالو بھیج دیے جائیں گے۔
سوال: اوغر کو چین سے کیا شکایات ہیں؟
جواب: سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ چین نے وقت کے ساتھ اوغر قوم کی مذہبی، تجارتی اور ثقافتی آزادی سلب کر لی ہے۔ چین نے کئی دفعہ اوغر آبادی پر کریک ڈاؤن کیا ہے جس کی تازہ مثال بیجنگ اولمپکس کے وقت دیکھنے میں آئی۔
پچھلی چند دہائیوں میں کئی اوغر رہنماؤں کو جیل بھیجا گیا جبکہ کئی دہشتگردی کے الزام سے بچنے کے لیے جلاوطنی پر مجبور ہو گئے۔ چند سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ چین جان بوجھ کر اوغر سے درپیش خطرات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہ علاقے میں اپنا جبر قائم رکھ سکے۔
چین پر یہ بھی الزام ہے کہ اس نے اس علاقے میں بڑے پیمانے پر ہن چینیوں کی نقل مکانی کو شہ دی تاکہ اوغر آبادی کو اقلیت میں بدل دیا جائے۔ اس وقت ہن چینی سنکیانگ کی کل آبادی کا چالیس فیصد ہیں۔
سوال: سنکیانگ میں اس وقت کیا حالات ہیں۔
جواب: پچھلی چند دہائیوں میں سنکیانگ میں کئی بڑے ترقیاتی منصوبے تشکیل پائے ہیں جس سے علاقے میں خوشحالی آئی ہے۔ لیکن اس علاقے سے آزاد اطلاعات شاذ و نادر ہی ملتی ہیں کیونکہ وہاں جانے والے مقامی اور غیر ملکی صحافیوں پر چینی حکومت گہری نظر رکھتی ہے۔
چین نے سنکیانگ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کی تشہیر پر کافی محنت کی ہے اور اوغر بھی کھل کر چینی حکام پر تنقید نہیں کرتے۔
لیکن چینی مفادات پر گاہے بگاہے ہونے والے حملوں سے لگتا ہے کہ اوغر علیحدگی پسند اس علاقے کی ایک شہ زور طاقت ہیں۔
چین نے سنکیانگ کے درالخلافہ ارمچی میں ہونے والے حالیہ فسادات کا ذمہ دار چین سے باہر بسنے والے اوغر علیحدگی پسندوں کو ٹھہرایا ہے۔ اوغر رہنماؤں کا کہنا ہے کہ چین نے ایک پر امن احتجاجی جلسے پر بلا جواز فائرنگ کی جس سے کم از کم ایک سو چالیس افراد ہلاک ہو گئے۔
ان رہنماؤں نے جنوبی چین کی ایک فیکٹری میں اوغر اور ہن میں ہونے والی جھڑپوں میں دو اوغر افراد کی ہلاکت کی انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
Advertisements