ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/07/18/free-advocacy-to-poor-objected-by-advocates-karachi/
FREE ADVOCACY TO POOR OBJECTED BY ADVOCATES- KARACHI
FREE ADVOCACY TO POOR OBJECTED BY ADVOCATES- KARACHI
(July 18, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/07/110717_karachi_lawyers_concern_tk.shtml
(July 18, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2011/07/110717_karachi_lawyers_concern_tk.shtml
15:42 GMT 20:42 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: اتوار 17 جولائ
کراچی: وکلا کو مفت قانونی مدد پراعتراض
کراچی: وکلا کو مفت قانونی مدد پراعتراض
کراچی کی ماتحت عدالتوں کے وکلا نے غیر اعلانیہ مدت تک ہڑتال کردی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ مفت قانونی مدد فراہم کرنے والے اداروں کو کام کرنے سے روکا جائے کیونکہ اس سے ان کی وکالت متاثر ہو رہی ہے۔
نادار خواتین، بچوں اور مرد قیدیوں کے لیے سابق جج ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں کمیٹی فار ویلفیئر آف پرزنرز اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کی سربراہی میں ادارہ برائے ثالثی تنازعات ناراض خاندانوں میں مفت تصفیے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان اداروں نے کراچی سٹی کورٹس میں دفتر قائم کیے ہوئے ہیں جن پر وکلا نے حملہ کرکے توڑ پھوڑ کی۔
کراچی میں بی بی سی کے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سندھ بار کونسل اور سندھ ہائی کورٹ بار بھی احتجاج میں کراچی اور ملیر بار کی حمایت کر رہی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد اور جسٹس رٹائرڈ سعید الزمان صدیقی کے اداروں سے وابستہ وکلاء کی ممبر شپ معطل کی جائے اور بار میں آمد پر پابندی عائد کی جائے۔
کراچی بار کے صدر محمد عاقل کا دعویٰ ہے کہ بار کونسل ایکٹ کے تحت سندھ بار کاؤنسل یا پاکستان بار کونسل کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی این جی او کام نہیں کرسکتی۔ان کے بقول این جی اووز صرف وراثت کے سرٹیفیکیٹ کے حصول ، خاندانی مقدمات اور بے گناہ اسیری کے مقدمات میں قانونی مدد اور مشاورت فراہم کرسکتی ہیں جبکہ سرکاری فنڈز پر منشیات قتل اور دیگر ملزمان کو مدد فراہم نہیں کی جاسکتی۔‘
وکلا رہنماؤں کا الزام ہے کہ دونوں سابق جج فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے ذریعے مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
وکلا رہنماؤں کا الزام ہے کہ دونوں سابق جج فیصلوں پر اثر انداز ہونے کے ساتھ ساتھ ان اداروں کے ذریعے مالی فوائد حاصل کر رہے ہیں۔
وکلا رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ’لوگوں کو بار کونسل مفت قانونی مدد فراہم کرے گی۔ جسٹس ناصر اسلم اور سعید الزمان صدیقی اپنے دفاتر یہاں سے لے جائیں۔‘
بار کونسل کے قانون کے مطابق فری ایڈ کمیٹی تین اراکان پر مشتمل ہوگی۔ ہر رکن کو سال میں کم سے کم ایک مقدمے کی مفت پیروی کرنی لازمی ہے۔
بار کونسل کے قانون کے مطابق فری ایڈ کمیٹی تین اراکان پر مشتمل ہوگی۔ ہر رکن کو سال میں کم سے کم ایک مقدمے کی مفت پیروی کرنی لازمی ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کا کہنا ہے کہ پاکستان بار کونسل اور سندھ بار کونسل کی فری ایڈ کمیٹی اگر فعال ہوتی اور کام کر رہی ہوتی تو اس قسم کے ادارے بنانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔
مفت قانونی مدد فراہم کرنے والے اداروں کا موقف درست ہے یا وکلا؟ اب یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک پہنچ چکا ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پاکستان اور سندھ بار کونسل کو ہدایت کی ہے کہ وہ گزشتہ تین سالوں کی تفصیل فراہم کریں کہ انہوں نے کتنے لوگوں کو مفت قانونی مدد فراہم کی ہے۔
جسٹس ناصر اسلم زاہد کا کہنا ہے کہ کسی کو قانونی مدد فراہم کرنے کے لیے کراچی بار سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیگل پریکٹشنر اور بار کونسل ایکٹ میں بھی انہیں ایسی کوئی شق نظر نہیں آئی کہ وہ ایسا کوئی ادارہ نہیں بنا سکتے جو لوگوں کو مفت مدد فراہم کرتا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا ’وکلا ریٹائرڈ ججوں کے ساتھ ایسا سلوک نہ کریں جو جنرل پرویز مشرف نے حاضر سروس ججوں کے ساتھ کیا۔ ہم اگر ایسے غریب آدمی جو فیس ادا نہیں کرسکتا کو مفت مدد فراہم کر رہے ہیں اس میں کیا برا ہے۔ میرا خیال نہیں ہے کہ وکلا یہاں تک سوچ رہے ہوں گے کہ اس غریب کو بھی چوس کر وہ چار پانچ ہزار رپے تو نکال ہی لیتے۔‘
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی بیوہ کا بیٹا گرفتار ہوجائے اور اس کے پاس پیسے نہ ہوں تو ہر ممکن طریقے سے وکیل کرکے اپنے بیٹے کا دفاع کرے گی۔‘
صوبائی حکومت کی جانب سے جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے ادارے کو مالی مدد فراہم کی جاتی ہے جس کے ذریعے وہ سندھ کے آٹھ شہروں میں مفت قانونی مدد فراہم کرتے ہیں۔
ادارے برائے ثالثی تنازعات کے ایک رکن جسٹس ریٹائر ظفر شیروانی نے بتایا کہ ان کے ادارے نے دو ہزار غریب خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے کا پروگرام بنایا تھا جس کی ہائی کورٹ سے منظوری لی گئی تھی۔
ادارے برائے ثالثی تنازعات کے ایک رکن جسٹس ریٹائر ظفر شیروانی نے بتایا کہ ان کے ادارے نے دو ہزار غریب خواتین کو قانونی مدد فراہم کرنے کا پروگرام بنایا تھا جس کی ہائی کورٹ سے منظوری لی گئی تھی۔
ان کے مطابق فیملی لا میں یہ شق موجود ہے کہ مقدمے کی کارروائی کے دوران یہ کوشش کی جائے کہ فریقین میں تصفیہ یا مفاہمت ہوجائے۔ بقول ان کے جج صاحبان وقت کی کمی کے باعث تصفیے کے لیے مسلسل کوشش نہیں کر سکتے اس لیے چیف جسٹس مشیر عالم کے حکم پر ان کے ادارے نے وہاں تصفیے کا کام شروع کیا تھا۔
جسٹس ریٹائر ظفر شیروانی کا کہنا تھا کہ’ ہم تو صرف ان غریب خواتین کی مدد کرنا چاہتے تھے جو وکلا کی فیس اور آنے جانے کا کرایہ نہیں دے سکتیں ہمارا مقصد وکلا کے پیٹ پر لات مارنا نہیں ہے‘۔
Advertisements
No comments:
Post a Comment