Wednesday, 6 June 2018

RAPE VICTIMS ARE TEEN GIRLS- UP (INDIA)


ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/07/18/rape-victims-are-teen-girls-up-india/

RAPE VICTIMS ARE TEEN GIRLS- UP (INDIA)
(July 18, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/india/2011/07/110718_rape_murder_india_ar.shtml
08:20 GMT 13:20 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: پير 18 جولائ
گیتا پانڈے
بی بی سی نیوز
بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش میں جنسی زیادتی کے واقعات میں غیرمعمولی اضافے نے حکومت کو ہلا کر رکھ دیا ہے، جن میں زیادہ تر نشانہ بننے والی کم عمر لڑکیاں ہیں۔
سولہ سالہ ساریکا کے لیے وہ دن عام دنوں جیسا ہی تھا جب وہ شام کو کھیتوں میں نہانے کے لیے اپنی ایک دوست چھایہ کے ساتھ گئی۔
وہ فروری کی ایک سرد اور دھندلکی شام تھی۔ ساریکا نے مجھے بتایا ’میں تھوڑا ڈر رہی تھی اس لیے میں جلد ہی واپس آنا چاہتی تھی۔‘
ساریکا نے کہا کہ واپسی پر اس کا راستہ اُسی کے گاؤں کے شیوام اور اس کے تین ساتھیوں نے روک لیا۔
شیوام نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پوچھا کہ شادی کرو گی جس پر میں نے کہا نہیں، میں تم سے شادی کیسے کر سکتی ہوں، ہم ایک ہی گاؤں میں رہتے ہیں اور تم میرے بھائی کی طرح ہو۔
پھر میں نے اسے دھکا دیا اور بھاگنے کی کوشش کی۔‘
’پھر وہ اپنے دوستوں کی مدد سے مجھے گھسیٹتا ہوا سنسان جگہ پر لے گیا اور مجھ پر چاقو اور کلہاڑی سے حملہ کر دیا۔ میں کچھ دیر ہوش میں رہی لیکن جب اس نے میرے سر اور گردن پر زخم لگائے تو میں نڈھال ہوگئی۔ جب مجھے ہوش آیا تو میں ہسپتال میں تھی۔‘
ساریکا نے مجھے اپنے زخم بھی دکھائے، کوئی ہتھیلی کے برابر سر پر ایک زخم کا نشان، اس کے جبڑے جنہیں ٹانکے لگا کر جوڑا گیا، اس کا دایاں ہاتھ جسے تقریباً دوبارہ جوڑا گیا، اس کا دایاں کان جس کی لوئی کا حصہ غائب تھا اور اس کے ہاتھ پر زخم کے لمبے نشان تھے۔
شیوام بعد میں گرفتار ہوگیا تاہم اس کے ساتھی اب بھی آزاد فضاء میں سانس لے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ اس پر غلط الزام لگایا گیا ہے۔
دہشت زدہ ساریکا اور اس کے اہلِ خانہ ضلع فتح پور کے اُدرولی گاؤں میں اپنا گھر بار اور زمین چھوڑ کر پینتالیس کلو میٹر دور اپنے رشتہ داروں کے ہاں ایک اور گاؤں منتقل ہوگئے۔
ریاست میں ساریکا ان خواتین میں سے ایک ہے جو جنسی زیادتی کا نشانہ بنی یا جن کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کی کوشش کی گئی۔
اتر پردیش میں ایک غیر سرکاری تنظیم پپلز یونین فار سول لبرٹیز کے نائب صدر ایس آر داراپوری کا کہنا ہے کہ اکثر خواتین اور کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی دورافتادہ گاؤں میں ہوتی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ہندوؤں کی نچلی ذات یعنی دلِت سے تعلق رکھتی ہیں۔
ان کے بقول ’میں نے جنسی زیادتی کے سنہ دو ہزار سات کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جس سے اندازہ ہوا کہ نوے فیصد متاثرہ خواتین دلت تھیں اور ان میں سے اسّی فیصد کم عمر لڑکیاں تھیں۔‘
انہوں نے کہا ’یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں ہے کہ ریاست کے جنوبی بندل کھنڈ علاقے کے کئی دیہاتوں میں نئی نویلی دلت دلہن کو پہلی رات اپنے گاؤں کے زمیندار کے ساتھ گزارنا پڑتی تھی۔ یہ روایت اب جاری نہیں ہے تاہم دلت خواتین اور لڑکیاں اب بھی درندوں کا آسان شکار ہیں۔‘
کانگریس کی رہنماء ریتا بہاگنا جوشی نے بی بی سی کو بتایا کہ اعتماد سازی کا بحران پیدا ہوچکا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ عورت سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔
ان کے بقول’اتر پردیش عورت کے رہنے کے لیے سب سے بری جگہ ہے۔‘
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق، سنہ دو ہزار نو میں ایک ہزار سات سو انسٹھ خواتین جنسی زیادتی کا نشانہ بنیں، یعنی پانچ خواتین کے ساتھ اوسطاً روزانہ ریپ ہوا۔
سرکاری اہلکاروں کا کہنا ہے کہ بیس کروڑ آبادی والے اس علاقے میں یہ اعداد و شمار اتنے زیادہ برے بھی نہیں ہیں۔
پولیس کے انسپکٹر جنرل جی پی شرما نے بی بی سی کو بتایا ’ہم آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہیں لیکن اگر آپ ریپ کا تناسب دیکھیں تو ہم ملک میں اٹھائیسویں نمبر پر ہیں۔ اتر پردیش میں جنسی زیادتی کے واقعات کی شرح محض 0.9 فیصد ہے۔‘
اتر پردیش کی وزیرِ اعلٰی کماری مایاوتی کا تعلق بھی ہندوؤں کی دلِت ذات سے ہے۔ انہوں نے حال ہی میں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم پر مہم کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔
ان کے بقول جنسی زیادتی میں ملوث افراد کو جلد سزائیں دی جائیں گی اور وہ اگست میں مختلف علاقوں کا دورہ کر کے خواتین کو یقین دلائیں گی کہ وہ ان کے دور حکومت میں محفوظ ہیں۔
تاہم ساریکا کو ان کے الفاظ پر بہت زیادہ یقین نہیں ہے۔ ان کے بقول ’میں چاہتی ہوں کہ میرے مجرموں کو پکڑا جائے، انہیں سزائے موت دی جائے تاکہ دوسروں کو پتہ ہو کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو ان کے ساتھ کیا ہوگا۔‘
Advertisements

No comments:

Post a Comment