Friday 8 June 2018

POLITICAL HISTORY – HOW PAKISTAN IS CREATED? Posted on August 4, 2011

ACTION RESEARCH FORUM:

OFTEN DIFFERENT VIEWS BOBBLES AND SUCCUMB, AS IF MULTIFACET MIRACLE OCCURRING ROLES OF JIINAH AND COMPANIONS MOB (WITH OUT PROPER MODELING SOLUTION AND GAME PLANS). WHETHER JINNAH POSSESSED EXTRA-ORDINARY VIRTUALITY BEYOND THE THAN UNCONTROLLED GROUND EVENTS ENCIRCLING THE COHESIVE NATAL DIRECTIONS FOR DIFUSE.  

ANYWAY, THAT WERE POINTING TO FUZZY VISIONS EXCEPT DEMAND A PIECE OF LAND FOR THE SONS OF SOILS (AZAD BOOK, OPENED AFTER 30 YRS) ALONGSIDE THE CONGRESS PLANS WHOSE KEY AGENDA WAS TO ANNIHILATE 'ZAMINDARA SYSTEM' REVENUE COLLECTORS MOSTLY MUSLIMS LEGACY OF MUGHALS.
NEVERTHELESS, THE DEFCIT OF COLLECTIVE VISION OF MUSLIMS AT LARGE WAS AMUKGATED WITH NOIS OF THE THAN FAITH SCHOOLS DUMMIES, BY THEIR INAPTNESS. BECAUSE, THE 1400 LEARNING FOCUS WAS NOT ON RATIONALIT OF MIND BUT ON HEART IMPULSES:  

WHETHER ‘BRAIN-POWER’ OR ‘HEART-IMPULSE’ PLINTHS ‘HUMAN GEN’?: http://b4gen.blogspot.com/2017/03/whether-brain-power-or-heart-impulse.html 


HOWEVER, THEJINNAH COMPETITORS WERE NARRATING A LOT OF LITERATURE ON VISIONARY SUBJECTS, THE PARTY FAITH BASED WISDOM WAS ZERO AND ZERO WAS ZERO, YOU NAME IT TO JUSDGE BY YOURSELF; MAY BE JINNAH, AND THEIR 2ND IN COMMANDS. PERSONALITIES WERE OVER DOMINENATED AND PROMOTION OF KNOWLEDGE WAS NEVER TALKED ABOUT IN THE LEAGUE ACTIVTIES. THE SOCIO-ECONOMIC STRUCTURE WAS CONTROLLED BY THE CONGRESS MINDED INTELLIGENTIA AND SO EDUCATION, SCIENCE, THINKERS.           

THE ACTION RESEARCH FORUM HAPPEND TO MEET A SENIOR CITIZEN WHO ATTENDED THE LAST JINNAH ADDRESS OF STRACHY HALL (AUGUST 1947) AMU, JUST BEFORE PARTITIOIN, HIS MEMOMIRS REMINDS JINNAH WAS POSED AS DIETY SUPERNATURAL ALIEN, LATER THE AMU SOCIETIY (CANADA) GATHERING TO PROBE THE THAN COLLECTIVE WISDOM OF POLARIZED GROUPS, THEY ARE ORTHOGALLY DIFFERENT WHAT FAITH POLARIZED FEUDALS OF PAKISTAN RAED ABOUT THE THAN GAME PLANS  OF EDUCATIONALLY DEFIICT MUSLIM, WHO POSE ON PHYSICAL POSTURES LIKE ABORIGINALS OF TERROTIRY.


THE AUTHORS MODEL CAN NOT ACCOMMODATE REVIVAL OF INDIAN SUB-CONTINENT MUSLIMS LOST IN INDO-PAKISTAN PARTITION, LIKEWISE SIKHS, OTHERS.     

**** 
ORIGINATING Source: https://be4gen.wordpress.com/2011/08/04/political-history-%E2%80%93-how-pakistan-is-created/


POLITICAL HISTORY – HOW PAKISTAN IS CREATED?

POLITICAL HISTORY – HOW PAKISTAN IS CREATED?
(August 5, 2011)
http://www.bbc.co.uk/urdu/entertainment/2011/08/110804_bookreview_pakistan_sen.shtml
11:31 GMT 16:31 PST, 2011 آخری وقت اشاعت: جمعرات 4 اگست
سیاسی تاریخ، پاکستان کیسے بنا؟
انور سِن رائے
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
نام کتاب: پاکستان کی سیاسی تاریخ، پاکستان کیسے بنا؟
مصنف: زاہد چوہدری
تکمیل و ترتیب: حسن جعفر زیدی
سنہ اشاعت: 2011 دوسرا ایڈیشن
صفحات: پہلی جلد: 613 دوسری جلد: 764
قیمت: دنوں جلدیں، دو ہزار روپے (مجلد)
ناشر: ادارہ مطالعہ تاریخ، 34، مزنگ روڈ لاہور
جب کسی کتاب کے بارے میں تاریخ ہونے کا کہا جاتا ہے تو اس سے یہ توقع پیدا ہو جاتی ہے کہ اس میں دیانتداری سے کام لیا گیا ہو گا اور اجتماعی یادداشتوں کو محفوظ کرتے ہوئے اسے اہل اقتدار اور مقتدر اداروں کے مقاصد سے ہی نہیں خود اپنی انفرادی اور اپنے دور کی اکثریتی سوچ سے بھی بچایا گیا ہو گا۔
وقع کی جاتی ہے ممکنہ حد تک واقعات اور حالات کی اصل تک رسائی کی کوشش کی گئی ہو گی، اس کوشش میں کامیابی اور ناکامی کے بارے میں بتایا گیا ہو گا اور انہیں جوں کا توں پیش کر کے نتائج اخذ کرنے کا کام پڑھنے اور تجزیے کرنے والوں پر چھوڑ دیا گیا ہو گا۔
ان معنوں میں ’پاکستان کی سیاسی تاریخ / پاکستان کیسے بنا؟‘ تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔ دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب کا پہلا ایڈیشن بائیس سال پہلے 1989 شائع ہوا تھا۔ زاہد چوہدری 1985 میں انتقال کرگئے تھے۔ اس سارے کام کی تکمیل حسن جعفر زیدی نے کی ہے۔
اس ایڈیشن میں شامل پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کیسے بنا؟ یہ سوال سیاسی تاریخ کے اوائل میں اتنا اہم نہیں تھاجتنا بعد میں ہوتا چلا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ مختلف مفادات سے وابستہ گروہوں کے مابین جوں جوں تضادات شدید ہوتے گئے ہر گروہ نے بڑھ چڑھ کر قیامِ پاکستان کی ایسی توجیہات بیان کیں جن سے اس کا مفاد پورا ہوتا تھا۔ اس جھگڑے میں تاریخ کے اصل حقائق گم ہو گئے۔ ان کی جگہ غیر حقیقی تصورات و نظریات کو فروغ دیا گیا اور انہیں تاریخ کا نام دے دیا گیا۔‘
یہ وہ تصور ہے جو 1970 میں ہونے والے انتخابات کے لیے خود کو سوشلسٹ، اسلامی سوشلسٹ اور اسلامی کہنے والی جماعتوں کی جانب سے چلائی جانے والی الیکشن مہم کے دوران ذرائع ابلاغ میں سامنے آیا۔ حسن جعفر زیدی کا خود کہنا ہے کہ ’اس کام کی ابتدا 1976 میں زاہد چوہدری نے ڈاکٹر مبشر حسن کے ایما پر کی تھی۔
اصل میں یہ دو جلدیں اُس کام کا ابتدائی حصہ ہیں جو بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کام کو مکمل ہونے میں کم از کم بارہ سال سے زائد کا عرصہ لگا ہے اور کیوں کہ یہ کام غیر حکومتی سطح پر ہوا ہے اس لیے یہ توقع پوری ہوتی ہے کہ اس پرحکومتی اثرات نہیں ہوں گے لیکن اس کےساتھ ہی دیباچوں میں ایسی باتیں بھی کہی گئی ہیں کہ جو اس نوع کے جائزوں کے لیے درکار احتیاط کے معیار کے تقاضوں پر پوری نہیں اترتیں اور پورے کام کے بارے میں بے احتیاطی کا شک سا پیدا کرتی ہیں۔
اس ایڈیشن کے دیباچے میں کہا گیا ہے کہ ’ پاکستان کیسے بنا؟ یہ سوال آج سے 20 سال قبل جب یہ کتاب شائع ہوئی تھی، تب جتنا اہم تھا آج اس سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ اس کے جواب میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور حکمراں طبقوں نے ایسی تشریحات کی ہیں جن کی بدولت آج اس ملک میں خون کی ندیاں بہائی جا رہی ہیں۔ یہ تشریحات کچھ یوں ہیں:
’پاکستان اسلام کے نام پر بنا اس لیے یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔‘
’پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اس کی جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ ضروری ہے۔‘
اور پھر اسلام اور نظریۂ پاکستان کے نام پر پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ایسی سیاسی اور مذہبی قوتوں کو فروغ دیا جنہوں نے فوجی آمریتوں کو پروان چڑھایا۔طالبان پیدا کیے، دہشتگرد اور خود کش بمبار پیدا کیے، جن کے ہاتھوں ہلاک
ہونے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ چکی ہے۔‘
’پاکستان اسلام کے نام پر بنا اس لیے یہاں اسلامی نظام نافذ ہونا چاہیے۔‘
یہ نعرہ 70 کے انتخابات میں زیادہ نمایاں طور پر سامنے آیا اور اس وقت کی فوجی آمریت ایک معلق پارلیمنٹ حاصل کرنے کے لیے جہاں دوسرے نعروں کو بھر پور جگہ دے رہی تھی وہاں جماعت اسلامی کے اس نعرے کو بھی فروغ دیا گیا تا کہ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کے چھ نکاتی پروگرام کی مقبولیت کا توڑ کیا جا سکے۔ دائیں بازو کو اس نعرے کی عوامی مقبولیت پر اس قدر یقین تھا کہ اس کے حامیوں نے ووٹنگ کا وقت ختم ہوتے ہی اپنی کامیابی کا اعلان کرنا شروع کر دیا تھا یہاں تک کہ کراچی کے ایک اخبار نے اسلام کی انتخابی فتح مندی کا خصوصی ضمیمہ تک شائع کر دیا تھا۔
’پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے، اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اس کی جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ ضروری ہے۔‘
یہ بات جنرل ضیا الحق کی آمریت کے دور کی ہے اور اس میں بھی جماعتِ اسلامی ان کی شریک تھی۔
جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں اسلام اور نظریۂ پاکستان کے نام پر ایسی سیاسی اور مذہبی قوتوں کو فروغ دیے جانے کی بات ہے جنہوں نے فوجی آمریتوں کو پروان چڑھایا اور طالبان، دہشتگرد اور خود کش بمبار پیدا کیے تو اس کا بھی تعلق جنرل ضیا الحق کے آمرانہ دور سے ہے۔ دراصل تو اس میں پہلی بات ہی الٹ ہے۔ سیاسی اور مذہبی قوتوں نے فوجی آمریتوں کو نہیں فوجی آمریت نے ایسی سیاسی اور مذہبی قوتوں کو فروغ دیا جو نہ صرف اس کے استحکام کا باعث بنیں بلکہ جنہوں افغانستان میں سوویت مداخلت کے خلاف طالبان پیدا کیے جو افغانستان میں جہاد کے نام پر وہ تمام کارروائیاں جو اب پاکستان میں بھی کر رہے ہیں لیکن اس کی تمام شہادتیں موجود ہیں کہ اس وقت پاکستان ہی نہیں ساری دنیا کا میڈیا ان کی تعریف اور سورمائی میں یک زبان تھا اور انہیں دہشتگردی قرار نہیں دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن سے پہلے شروع ہو چکا تھا البتہ پاکستان کی حدود میں اس نوع کی کارروائیاں 9/11 کے بعد اور جنرل مشرف کے دور میں شروع ہوئیں۔
ان باتوں کا اس دور سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کتاب ہے لیکن مقصد یہ ہے کہ تاریخی یا نیم تاریخی کام کے بارے میں اعتبار بہت اہم ہوتا ہے اور یہ اعتبار ہر لفظ سے جھلکنا چاہیے۔
اس تبصرے میں کتاب کے اندرونی متن کے مندرجات پر بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ کتاب ایسا مواد فراہم کرتی ہے جو پاکستان بننے کے بارے میں اردو میں پڑھنے والوں کے لیے یقیناً اہم ہے لیکن انہیں نتائج اخذ کرتے ہوئے پوری احتیاط سے کام لینا ہو گا۔
کتاب کا دوسرا ایڈیشن پہلے ایڈیشن کے مقابلے میں طباعت کے اعتبار سے زیادہ عمدہ ہے لیکن پھر بھی قیمت غیر متناسب ہے۔ پہلے ایڈیشن کے مجلد سیٹ کی قیمت تین سو روپے تھے جسے اضافی چیپی لگا کر پانچ سو روپے میں بھی فروخت کیا گیا۔
Advertisements

No comments:

Post a Comment