Source: https://www.bbc.com/urdu/science-44393651
بریسٹ کینسر کے بارے میں آپ کتنا جانتے ہیں؟
اس ہفتے بریسٹ کینسر سرخیوں میں رہا لیکن کیا آپ نے اس کے بارے میں چھپنے والی ہوش ربا خبریں پڑھی ہیں؟ یا آپ کو لگتا ہے کہ یہ بیماری صرف 'دوسروں' کو ہوتی ہے؟
دنیا میں عورتوں کے ہونے والے کینسر میں اب بریسٹ کینسر سر فہرست ہے لیکن انڈیا میں بیداری اور علاج کی راہ میں سفر ابھی لمبا ہے۔
نئی تحقیق کیا ہے؟
بریسٹ کینسر کے زیادہ تر مریضوں کو سرجری، کیموم تھراپی، ریڈیو تھراپی اور ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی کی ضرورت پڑتی ہے۔
کیموتھراپی کینسر کے خلیات کو تباہ کرتی ہے لیکن اس کے کئی مضر اور خطرناک اثرات بھی ہوتے ہیں۔ اب ایک غیر معمولی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ بہت سے مریضوں کو کیموتھراپی کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ اس کے بغیر بھی ایک اچھی اور صحت مند زندگی گزار سکتی ہیں۔
لیکن اس زمرے میں بریسٹ کینسر کے سب مریض نہیں آتے یا ہر طرح کا بریسٹ کینسر نہیں آتا۔ اگر کچھ شرائط پوری ہوں اور مرض ابتدائی مراحل میں ہو، تو ایک ٹیسٹ ہے جو یہ بتا سکتا ہے کہ کیموتھراپی کی جانی چاہیے یا نہیں۔
اس ٹیسٹ کو'آنکو ٹائپ ڈی ایکس' کہتے ہیں اور اس سے بنیادی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کنسر کے دوبارہ ہونے کے کیا امکانات ہیں یا کینسر کتنا 'اگریسو' یا خطرناک ہے لیکن یہ بہت مہنگا ٹیسٹ ہے اور تقریباً تین لاکھ روپے میں ہوتا ہے۔
دوسری بڑی تحقیق ابھی آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے۔ اس میں مریض کے جسم سے وہ خلیات حاصل کیے جاتے ہیں جو کینسر کے خلیات کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قدرتی مدافعتی نظام کا حصہ ہے۔ مدافعتی نظام کامیاب رہے تو مرض کنٹرول یا ختم ہو جاتا ہے۔ سائسندانوں نے ان خلیات کو نکالا، لیب میں انہیں 'گرو' کیا اور پھر واپس جسم میں ڈال دیا۔
ایک امریکی خاتون، جس کا بریسٹ کینسر پورے جسم میں پھیل چکا تھا، ڈاکٹروں کے مطابق بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے جو ہر مریض کے لیے اس کے کینسر کی نوعیت کے مطابق علاج کی راہ ہموار کرے گی۔ لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔
انڈیا میں بریسٹ کینسر ابھی ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں کم ہے لیکن فرق یہ ہے کہ یہاں اس کا پتا اس وقت چلتا ہے جب مرض بڑھ چکا ہو اور اس لیے علاج مشکل ہو جاتا ہے۔
انڈیا میں کینسر کے کیسز
انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012 میں دنیا بھر میں سولہ لاکھ ستر ہزار عورتیں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئیں۔ انڈیا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ چوالیس ہزار کیسز کی تشخیص ہوتی ہے۔
کونسل کے مطابق مرض کے ابتدائی مراحل میں بھی 'بریسٹ کونزرویشن' یا سرجری میں چھاتی بچانے کی شرح بہت کم ہے کیونکہ ملک میں ہر جگہ جدید ترین طبی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔
انڈیا کے دیہی علاقوں میں ہر ایک لاکھ میں سے صرف پانچ عورتیں بریسٹ کینسر کا شکار ہوتی ہیں لیکن شہری علاقوں میں تعداد 30 تک پہنچ جاتی ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلو ایچ او) کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں بریسٹ کینسر کے کیسز بڑھ رہے ہیں کیونکہ وہاں اب اوسطً عمر بڑھ رہی، لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں اور مغربی طرز کی زندگی اختیار کر رہے ہیں۔
ڈبلو ایچ او کے مطابق 2011 میں دنیا بھر میں بریسٹ کینسر سے تقریباً پانچ لاکھ عورتوں کی موت ہوئی۔ لیکن مختلف ممالک میں کینسر کی شرح میں کافی فرق ہے۔ مشرقی افریقہ میں ایک لاکھ عورتوں میں سے تقریباً 19 کو بریسٹ کینسر ہوتا ہے لیکن مغربی یورپ میں یہ شرح 90 سے کچھ کم ہے۔
ظاہر ہے کہ بریسٹ کینسر کے علاج اور بعد کی زندگی کے معیار کا تعلق براہ راست حفظان صحت کے نظام سے ہے۔ پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج بہت مہنگا ہے اور زیادہ تر بڑے شہروں میں ہی دستیاب ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق بریسٹ کینسر کیوں ہوتا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں دیر تک حیض جاری رہنا اور زیادہ عمر میں پہلے بچے کی پیدائش وغیر شامل ہیں یعنی بنیادی طور پر جسم میں ایسٹروجن ہارمون کی زیادتی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
لیکن جو مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں وہ بریسٹ کینسر سے زیادہ محفوظ رہتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق کینسر کے زیادہ تر کیسز کو روکا تو نہیں جاسکتا لیکن اگر بیماری کا بر وقت پتا چل جائے تو کینسر سے اموات کی شرح کو بہت کم اور باقی زندگی کے معیار کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
تشخیص کا بہترین طریقہ تو میموگرافی ہے لیکن ماہرین کے مطابق عورتوں کو خود بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے بریسٹ میں کوئی گانٹھ تو محسوس نہیں ہو رہی، چھاتی کا سائز تو تبدیل نہیں ہو رہا، نپل 'انورٹڈ' تو نہیں ہے یعنی اندر تو نہیں جارہا، نپل سے کوئی مواد تو نہیں بہہ رہا، بغل میں سوجن یا گانٹھ تو نہیں ہے اور بریسٹ میں ایسا درد یا تکلیف تو نہیں جو ٹھیک نہ ہو رہا ہو۔ یہ بریسٹ کینسر کی علامات ہو سکتے ہیں۔
بریسٹ کینسر سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی۔ یہ خطرناک بیماری ضرور ہے لیکن اگر تشخیص وقت پر ہوجائے تو اس پر قابو پایا جاسکتا ہے۔بس ضرورت آگاہی کی ہے۔
No comments:
Post a Comment