Source: https://www.bbc.com/urdu/india-44357214
ماں ڈھونڈنے نکلی تھی، جڑواں بھائی بھی مل گیا
"جب میں نے پہلی مرتبہ اپنے بھائی کو دیکھا تو میں سکتے میں آگئی۔"
"مجھ سے کچھ بولا نہ گیا۔ ہم اُس کے گھر میں صوفے پر بیٹھے رہے۔ بالکل خاموشی تھی۔ اور پھر میں نے رونا شروع کردیا۔"
"اس نے سب سے پہلے جو الفاظ کہے وہ تھے "مت رو"۔ پھر اُس نے میرا ہاتھ تھاما۔ وہاں اُس وقت جو بھی موجود تھا اُس کے آنسو بہہ رہے تھے۔"
کرن گُستافسون اُس وقت 33 برس کی تھی جب اُس کے اپنے جُڑواں بھائی سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی۔
اس کی جذبات کے اُتار چڑھاؤ کی زندگی کا یہ نہایت ہی غیر متوقع موڑ تھا۔ کرن انڈیا آئی تو تھی اپنی جنم دینے والی ماں کو تلاش کرنے، لیکن جو غیر متوقع بات تھی وہ یہ کہ اُسے اپنا بچھڑا جڑواں بھائی مل گیا۔
کرن کی پرورش سویڈن میں ہوئی تھی جہاں اُسے ایک جوڑے نے گود لے لیا تھا۔ کرن کا کہنا تھا کہ اُس کے والدین بہت گرمجوش اور خوش مزاج لوگ ہیں جنھوں نے اُسے وہ تمام خوشیاں دیں جن کی ایک بچہ خواہش کرسکتا ہے۔
اُس کو گود لینے والی ماں، ماریہ، ایک ریٹائرڈ ٹیچر، جبکہ باپ، کجل اک ایک بزنس مین ہیں۔ ان دونوں نے کبھی بھی یہ بات پوشیدہ نہیں رکھی کہ انھوں نے کرن کو بھارتی ریاست گجرات کے شہر سُورت کے ایک یتیم خانے سے اُس وقت گود لیا تھا جب وہ تین برس کی تھی۔
"وہ ہمیشہ کچھ کمی محسوس کرتی تھی"
کرن کہتی ہیں کہ انھیں اپنی کم سنی کے دور کی کوئی یاد نہیں ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ "میرے والدین نے مجھے کبھی مختلف محسوس نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ تم جو بھی ہو اُس پر فخر محسوس کرو۔ میری پرورش کے دوران جو کچھ مجھے ملا میں اُس سے زیادہ اور کیا مانگ سکتی ہوں۔"
لیکن پھر بھی اس نے تسلیم کیا کہ وہ کچھ گہری کمی کا احساس رکھتی تھیں۔ مثال کے طور پر وہ اپنے دو چھوٹے بہن بھائیوں کے درمیان آپس میں ایک خاص قسم کے احساسات کو دیکھ کر حسد کرتی تھی۔ اُسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ دونوں جس طرح ایک دوسرے کےلیے احساس رکھتے ہوں شاید وہ اُس کےلیے اُن کے دل میں کبھی پیدا نہ ہو۔
جوں جوں وہ بڑی ہوتی ہوگئی توں توں اُس کا اپنے خالی پن کا احساس بڑھتا گیا۔ بالآخر اُس نے اپنے خاندان سے اس احساس پر بات کی۔ مجھے گود لینے والے خاندان نے میرے احساس کو سمجھا اور پھر پورے خاندان نے سن 2000 میں سُورت کے سفر کا ارادہ کیا۔
وہ دوبارہ سن 2005 میں بھی وہاں آئی، تاہم اس مرتبہ وہ اپنی جماعت کے ہمراہ سوشیالوجی اور انسانی حقوق کے کورس کے مطالعاتی دورے پر آئی تھی۔
لیکن اس مرتبہ اُس کے دل میں مزید سوالات نے جنم لیا۔
سویڈن میں اپنے گھر جا کر اُس نے اپنے گود لیے جانے کے بارے میں مزید تحقیقات کیں۔ اور اُسے اس یتیم خانے کے بارے میں اور زیادہ تفصیلی معلومات ملیں جہاں سے اُسے گود لیا گیا تھا۔ سن 2010 تک اُس نے اپنی جنم دینے والی ماں کو تلاش کرنے کی ٹھان لی۔ مگر اُسے یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی اُس ماں کو کیسے تلاش کرے۔
کرن نے اپنے گود لینے والے والدین کے بارے میں کہا کہ "میرے والدین میرے اس فیصلے سے مطمئن تھے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں مجھ پر فخر ہے اور وہ مجھ سے بیار کرتے ہیں۔"
تاہم اُس نے اپنے اس فیصلے پر عملدرآمد چھ برس بعد کیا۔
سن 2016 میں کرن، جو اب ایک کونسلر بن چکی تھی، اتفاق سے ایک ایسے لیکچر سننے پہنچی جہاں ارون ڈوہل نے تقریر کرنا تھی۔ ارون ہالینڈ کی بچوں کی سمگلنگ کے خلاف کام کرنے والی ایک این جی او سے وابسطہ ہیں۔ اور کرن ہی کی طرح انیں بھی انڈیا سے گود لیا گیا تھا۔
اپنی تقریر کے دوران ارون ڈوہل نے اپنی جنم دینے والی ماں کے بارے معلومات حاصل کرنے کی قانونی جنگ کی تفصیلات بتائیں۔
اُس کی تقریر سے کرن کو حوصلہ ملا اور اُس نے ارون سے رابطہ قائم کیا۔ ارون نے کرن کو ایک بچوں کی حفاظت کرنے والی ورکر انجلی پور سے ملایا جس نے مدد کرنے کا وعدہ کیا۔
انجلی پور نے اپنی انکوائری کے ذریعے کرن کی ماں کا کھوج نکال لیا۔ اُس کا نام سندھو گوسوامی تھا اور وہ سُورت کے ایک گھر میں ملازمہ تھی۔
کرن کو معلوم ہوا کہ اُس کی عمر صرف دو برس تھی جب اُس کی ماں اُسے یتیم خانے میں چھوڑ آئی تھی۔ وہ اُس سے ملنے کےلیے کئ مرتبہ وہاں کے چکر لگاتی تھی۔ اُس کی ماں نے یتیم خانے والوں کو اپنے کام کرنے کی جگہ کا پتہ بھی لکھوا دیا تھا۔
یہ تمام تفصیلات جمع کرنے کے بعد، کرن اپریل کے مہینے میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ انڈیا آئی۔ وہ پہلے اُن سے ملی جہاں اُس کی ماں کام کرتی تھی۔ مگر اُن سے ایسی معلومات نہ مل سکیں جن کے ذریعے وہ اپنی ماں تک پہنچنے کا سفر جاری رکھ سکتی۔ اُنھیں یہ معلوم نہ تھا کہ اب کرن کی ماں کہاں تھی، اور یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ وہ زندہ بھی ہے۔ لیکن ان سے اُسے اپنی ماں کی ایک تصویر مل گئی۔
"میں ہو بہو اپنی ماں جیسی ہوں۔"
کرن کے لیے وہ بہت ہی ہیجانی اور جذباتی قسم کے دن تھے۔ لیکن اس سے بھی بڑا حیران کُن مرحلہ ابھی تو آنا تھا۔
انجلی پور نے کرن کا پیدائش سرٹیفیکیٹ تلاش کرلیا اور اُس کے ذریعے انھیں علم ہوا کہ کرن کا تو ایک جُڑواں بھائی بھی ہے۔
"یہ تو ناقابل یقین بات تھی۔ میرے احساسات کے بارے میں جو سوالات تھے مجھے ان کا جواب مل گیا۔ میں ایک جذباتی دھچکے میں تھی۔ یہ تو کمال ہو گیا تھا،" کرن نے کہا۔
اب اُ سنے اپنے بھائی کو تلاش کرنا شروع کیا۔
شکر ہے کہ بھائی کو تلاش کرنا زیادہ مشکل نہ تھا۔ اُس کو سُورت کے ایک گھرانے نے گود لے لیا تھا اور اب وہ ایک بزنس مین تھا۔
لیکن پھر بھی اُس سے ملنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اُنھیں معلوم ہوا کہ اُس کے بھائی کو گود لینے والے خاندان نے کبھی یہ نہیں بتایا تھا کہ اُسے گود لیا گیا تھا۔ وہ اُسے یہ بتانے سے ہچکچا رہے تھے۔ اُن کو راضی کرنے کیلیے بہت کوششیں کرنا پڑیں۔
اور بالآخر ان بچھڑے ہوئے جُڑواں بہن اور بھائی کی ملاقات ہوئی۔
کرن نے کہا کہ "ہم نے ایک دوسرے کو تلاش کرلیا۔ لیکن ہمارے ذہن میں کئی سوالات ھیں۔ اُس ملاقات کے ماحول میں ایک افسردگی تھی۔"
اُس نے بتایا کہ اُس کا بھائی جس کی ابھی تک شناخت ظاہر نہیں کی گئی ہے، نے اُسے بتایا کہ "وہ بھی اپنی زندگی میں کچھ کمی محسوس کرتا تھا۔"
"جب ہم نے اُس دن ایک دوسرے کو الوداع کہا تو یہ سب کچھ غیر حقیقی سا لگ رہا تھا لہٰذا ہم نے کچھ زیادہ باتیں نہیں کیں۔"
جڑواں بہن بھائیوں نے اگلے روز کرن کے ہوٹل میں مزید باتیں کرنے کیلئے دوبارہ ملاقات کا فیصلہ کیا۔
کرن نے کہا کہ اُس کا بھائی "خوف زدہ ہے کہ کہیں وہ اُسے دوبارہ نہ کھو دے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ میں ایئرپورٹ جاؤں اس لیے وہ ہوٹل سے پہلے روانہ ہوگیا۔"
"جب ہم جدا ہوئے تو اُس نے مجھے گلے لگایا اور پھر فوراً اپنے والد کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ اُس لمحے مجھے اپنے خالی پن کا بہت احساس ہوا۔ لیکن اُس نے وعدہ کیا کہ اگلے برس ہم دونوں اپنی سالگرہ اکھٹے سویڈن میں منائیں گے۔"
No comments:
Post a Comment