ACTION RESEARCH FORUM; STATE BANK CONTROL LS THE MONEY TRANSACTION SYSTEM OF BANKS, WHO ARE AUTHORITY ON ALL, HOW GI MIC PREVAILS FOR MONEY LAUNDERING (SENDING LARGE SUM TO FOREIGN ACCOUNTS, AND RECYCLE THEM AS DOLLAR ACCOUNTS, WHICH HAS CHECK AND BALANCE DUE TO BALANCE OF PAYMENTS FACILITATION'S.
OBVIOUSLY IT IS DISHONESTY ON THE PART DOLLAR CONTROLLING SUCCESS WHICH ARE CHEATING ASIAN COUNTRIES, BY US INTERNATIONAL FRAUDS.
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45742131
OBVIOUSLY IT IS DISHONESTY ON THE PART DOLLAR CONTROLLING SUCCESS WHICH ARE CHEATING ASIAN COUNTRIES, BY US INTERNATIONAL FRAUDS.
Source: https://www.bbc.com/urdu/pakistan-45742131
جعلی اکاؤنٹس: پیسہ جو آپ کے اکاؤنٹ میں ہے مگر آپ کا نہیں
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر جھنگ کے ایک بے روز گار 27 سالہ نوجوان کو چند روز قبل بتایا گیا کہ کراچی کے ایک نجی بینک میں ان کے نام سے دو اکاؤنٹ موجود تھے۔ ان سے انھوں نے مبینہ طور پر 17 کروڑ روپے سے زائد کی رقم نکلوائی ہے۔
محمد اسد علی اور ان کے خاندان کے لیے بظاہر ’یہ جھٹکے سے کم نہیں تھا۔‘ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کے بھائی امجد علی کا کہنا تھا کہ ’انہیں تو علم ہی نہیں تھا۔ وہ کبھی کراچی گئے ہی نہیں۔‘
ان کے مطابق اسد علی کے پاس انجنیئرنگ کی ڈگری تھی، تعلیم انہوں نے وضیفوں پر حاصل کی تھی اور ان دنوں نوکری تلاش کر رہے تھے۔ زمانہ طالبِ علمی میں ان کے بینک اکاؤنٹ رہے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی کراچی میں نہیں تھا۔
تاہم اسد علی کو یہ معلومات سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے قائم کردہ اس 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے ایک خط میں فراہم کیں جو سابق صدر آصف علی زرداری اور دیگر ملزمان کے خلاف جعلی یا مشکوک بینک اکاؤنٹوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کے الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے۔
اس خط کے ذریعے انہیں 2 اکتوبر کو کراچی میں جے آئی ٹی کے دفتر میں پیش ہونے کا کہا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
بی بی سی کے پاس موجود سمن کی کاپی کے مطابق جے آئی ٹی نے اسد علی کو بتایا کہ انہوں نے کراچی میں سمٹ بینک کی یونیورسٹی ٹاور برانچ میں لکی انٹرنیشنل کے نام سے بنے دو مشکوک یا جعلی اکاؤنٹوں سے 17 کروڑ سے زائد کی رقم نکالی ہے۔
خط میں یہ بھی لکھا گیا کہ اسد علی اس حوالے سے ’حقائق سے آگاہی رکھتے ہیں یا ان کے پاس ایسی معلومات ہیں جو جے آئی ٹی کے پاس زیرِ تحقیق موضوع سے تعلق رکھتی ہے۔‘
انہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے تمام تر بینک اکاؤنٹوں، ٹیکس اور جائیداد کی تفصیلات کے ساتھ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کروائیں۔ اسد علی کے گھر والوں کے مطابق منگل کے روز وہ جے آئی ٹی کے دفتر گئے اور انھیں جمعرات کو واپس جانے بھی دیا گیا تاہم وہ میڈیا سے بات کرنے سے گریزاں ہیں۔
اسد علی کا اکاؤنٹ محض ایک مثال ہے۔ پاکستان کی فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی یعنی ایف آئی اے اور دیگر تحقیقاتی اداروں کے مطابق ایسے ہزاروں جعلی یا مشکوک بینک اکاؤنٹ پاکستان میں موجود ہیں۔
تاہم سوال یہ ہے کہ بینک اکاؤنٹ جعلی یا مشکوک کیسے ہو سکتا ہے؟ بینک تو اکاؤنٹ کھولتے وقت کئی طریقوں سے مکمل چھان بین کرتے ہیں؟ پھر یہ اکاؤنٹ کیسے کھل جاتے ہیں؟
پاکستان میں منی لانڈرنگ کے جرم میں 10 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ غیر قانونی طور پر حاصل کیے جانے والی ہر جائیداد، رقم یا اثاثے کو قانونی ظاہر کرنے کی کوشش منی لانڈرنگ کے زمرے میں آتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ’کالے دھن‘ کو ’سفید‘ کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔
تو پاکستان میں ایسا کوئی طریقہ ہے کہ آپ نہ چاہتے ہوئے یا لا علمی میں ایسا جرم کرنے یا اس کا حصہ بننے سے محفوظ رہ سکیں؟ اس آخری سوال کا جواب پہلے کے سوالوں سے واضح ہو گا۔
اکاؤنٹ کیسے جعلی یا مشکوک ہوتا ہے؟
جعلی یا مشکوک بینک اکاؤنٹ عام طور پر وہ اکاؤنٹ ہے جو جس شخص کے نام پر کھولا جاتا ہے اس میں پیسہ اس کا اپنا نہیں ہوتا۔ زیادہ تر امکان کیا جاتا ہے کہ وہ شخص اس سے باخبر ہوتا ہے۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ اسے یکسر اس کا علم نہ ہو۔
ایسی صورت میں اس کا نام اور شناختی کارڈ وغیرہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایف آئی اے کے ایک تحقیقاتی آفسر جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کی بھی تین صورتیں ہیں۔
’آپ کی شناختی معلومات یا تو چوری کی جاتی ہیں، فراڈ کے ذریعے خود آپ سے حاصل کی جاتی ہیں یا پھر ملی بھگت سے آپ سے خریدی جاتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کسی کی شناختی معلومات حاصل کرنا مشکل نہیں۔ ’آپ کئی جہگوں پر اپنے شناختی کارڈ کی کاپی دیتے ہیں وہاں سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ حتیٰ کہ آپ کے انگوٹھے کا نشان تک نقل کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل پنجاب کے ایک علاقے سے سائبر کرائم میں ملوث ایسا گروہ گرفتار کیا گیا تھا جو سیلیکون کی مدد سے انگوٹھے کے نشانات کی ہو بہو نقل تیار کرتا تھا۔
جعلی اکاؤنٹ کیسے کھلتا ہے؟
اس اکاؤنٹ کو جعلی کے بجائے مشکوک اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حقیقی شناختی کارڈ پر کھولا گیا ہوتا ہے تاہم اس میں موجود رقم اس نام کے شخص کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتی اور نہ اس کی ملکیت ہوتی ہے۔
ماضی میں پاکستان کے سٹیٹ بینک سے منسلک رہنے والے ایک افسر جو حالیہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہونے کے لیے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایسے اکاؤنٹ عموماً کالے دھن کو دھونے کے لیے محفوظ ترین طریقے کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔
’اگر آپ کو رشوت کا پیسے ملتا ہے یا آپ اپنے پیسے پر ٹیکس بچانا چاہتے ہیں تو اس کو رکھنے کی یہی صورت ہے کہ یا آپ نقد رکھیں گے، یا لاکر لیں گے یا پھر پرائز بانڈز خرید لیں گے۔ تاہم جعلی بینک اکاؤنٹ محفوظ ترین طریقہ ہے۔ اس طرح آپ کا نام بھی نہیں آتا اور آپ پیسہ استعمال بھی کر سکتے ہیں۔‘
ایسا اکاؤنٹ چوری شدہ شناخت سے کھولا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا عموماً چھوٹے یا نئے بینکوں میں ہوتا ہے جنہیں سرمائے کی ضرورت رہتی ہے، ’اس لیے وہ دانستاً بھی چھان بین سے منہ پھیر لیتے ہیں۔‘
کیا بینک ملوث ہو سکتا ہے؟
دونوں ماہرین کی رائے میں بینکوں کی ملی بھگت کے بغیر ایسے جعلی یا مشکوک اکاؤنٹ کھولنا یا چلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔
سٹیٹ بینک کے سابق افسر کا کہنا تھا کہ کالے دھن کو قانونی ہونے کا رنگ دینے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ ’بینک یا اس کے کسی اہلکار کی صورت میں معاون ڈھونڈ لیں۔"
ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر کے مطابق اگر آپ کسی طریقے سے کسی شخص کا شناختی کارڈ حاصل کر بھی لیں تو آپ کو اس کے دستخط کرنے آنے چاہییں۔ ’اس کے علاوہ بینک آپ سے پیسے کا ذریعہ بھی پوچھتا ہے، آپ کے ذرائع آمدن بھی پوچھتا ہے اور آج کل آپ کے بایو میٹرکس بھی لیے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں یا تو جس شخص کی شناخت استعمال کی جاتی ہے اسے پیسے دے کر ساتھ ملایا جاتا ہے۔ ’پیسے تو اس کے ویسے بھی نہیں ہوتے۔ تو اسے اس کا نام استعمال کرنے کے عوض کچھ پیسہ دے دیا جاتا ہے۔‘
دوسری صورت میں ’بینک اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور چوری شدہ شناخت پر نہ صرف اکاؤنٹ کھول دیتا ہے بلکہ اسے چلاتا بھی رہتا ہے۔‘
فراڈ کیسے ہوتا ہے؟
ایف آئی اے کے آفیسر کے مطابق انھوں نے حال ہی میں پنجاب سے ایک گروہ گرفتار کیا جو لوگوں کو بیرونِ ملک بھیجنے کا جھانسا دیتا تھا۔ ان سے کہا جاتا تھا کہ اس کے لیے انھیں بینک اکاؤنٹ کھولنا ہو گا۔
’ایسے افراد کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی تھی تو ان کے ذریعے اکاؤنٹ کھول کر وہ گروہ خود اس میں رقم رکھتا تھا۔ اکاؤنٹ کھولنے والے سے چیک بُک اور اے ٹی ایم کارڈ وغیرہ لے لیا جاتا تھا۔‘
اس طرح لاعلمی میں فراڈ کا شکار ہونے والا شخص خود اکاؤنٹ کھول کر ان کے حوالے کر دیتا ہے۔
کیا اس سے بچاؤ ممکن ہے؟
سٹیٹ بینک کے افسر کے مطابق انفرادی حیثیت میں آپ سٹیٹ بینک سے یہ معلومات حاصل کر سکتے ہیں کہ آپ کے شناختی کارڈ کے ساتھ کتنے بینک اکاؤنٹ منسلک ہیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بینکوں میں اکاؤنٹ کھولنے کے حوالے سے نہ صرف سٹیٹ بینک کو واضح پالیسی وضع کرنے اور اس پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ ’حکومتِ پاکستان کو بےنامی اثاثوں پر پابندی کے حوالے سے قانون کا نفاذ جلد از جلد یقینی بنانا ہو گا۔‘
بےنامی جائیداد وہ تصور ہوتی ہے جو کسی کے نام سے نہیں یا اس شخص کے نام پر خریدی جاتی ہے جس نے اس کے لیے رقم ادا نہیں کی۔ ایسے شخص کو بےنامی دار کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس حوالے سے سنہ 2016 میں قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا تاہم وہ تاحال لاگو نہیں ہو پایا۔
اہلکار کے مطابق ’اس صورت میں کوئی بھی جعلی یا مشکوک اکاؤنٹ رکھنے والا شخص آرام سے اسے عدالت میں بےنامی اکاؤنٹ ظاہر کر کے چھوٹ سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ تمام تر بینک اکاؤنٹ کھولتے وقت اچھی طرح سے چھان بین کر لیں کہ پیسہ کہاں سے آ رہا ہے۔ ان اقدامات کے بغیر شناخت کی چوری کو روکنا انتہائی مشکل ہو گا۔
No comments:
Post a Comment